تقدیر
وکیپیڈیا سے
یہ عقیدہ کہ انسان کے تمام اعمال و افعال خدا کی طرف سے پہلے سے مقدر ہوتے ہیں بہت قدیم ہے۔ اس کے آثار سومیری ، مصری اور اشوری تہذیبوں میں بھی ملتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق انسان بالکل مجبور ہے اور خدا نے نیکی ، بدی ، خوش حالی ، مفلسی جو کچھ بھی ہے۔ اس کے لیے پہلےسے مقرر کر دی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ ابتدا میں مسلمانوں کا رجحان بھی تقدیر کی طرف تھا۔ مگر قدری فرقے والوں نے جن کا بانی جہم بن صفوان تھا انسان کو اپنے افعال و اعمال کی حد تک آزاد اور مختار تسلیم کیا۔ قدریوں کا کہنا تھا کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اپنی مرضی سے کرتا ہے لہذا اُسے اپنے تمام اعمال و افعال کا حساب خدا کو دینا ہوگا۔ ان کے برعکس جبری فرقہ والے تھے۔ اس فرقہ کا بانی واصل ابن عطا تھا جو انسان کو مجبور محض مانتا تھا۔ اشاعرہ اور ماتریدیوں کا مسلک دونوں کے وسط میں ہے۔ یعنی انسان بعض چیزوں میں مختار ہے اور بعض میں مجبور ہے۔