حسین بن منصور حلاج

وکیپیڈیا سے

منصور حلاج (پیدائش 858ء، وفات 26 مارچ 922ء) ایک فارسی صوفی اور مصنف تھا۔ اس کا پورا نام ابو المغیث الحسین ابن منصور الحلاج تھا۔ اس کے والد منصور پیشے کے لحاظ سے دھنیے تھے اس لیے اس کی نسبت حلاج کہلایا۔ فارس کے شمال مشرق میں واقع ایک قصبہ الطور میں پیداہوا۔ عمر کا ابتدائی زمانہ عراق کے شہر واسط میں گزرا۔ پھر اہواز کے ایک مقام تستر میں سہل بن عبداللہ اور پھر بصرہ میں عمرو مکی سے تصوف میں استفادہ کیا۔ 264ھ میں بغداد آگیا اور جنید بغدادی کے حلقۂ تلمذ میں شریک ہوگیا۔ عمر کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں بسر کیا بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ ، خراسان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہندوستان سےجادو کا علم حاصل کیا اوربالآخر بغداد میں رہائش اختیار کی اور وہیں پرقتل ہوا ۔

وہ اتحاد ذات الہی یا ہمہ اوست کا قائل تھا اور "اناالحق" ’’میں خدا ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا کرتا تھا۔ 297ھ/909ء میں ابن داؤد الاصفہانی کے فتوے کی بنیاد پر پہلی مرتبہ گرفتار ہوا۔ 301ھ میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوا اور آٹھ سال مسلسل اسیر رہا۔ 309ھ میں اس کے مقدمے کا فیصلہ ہوا اور 18 ذیعقد کو سولی دے دی گئی۔ اس کی وفات کے بعد علما کے ایک گروہ نے اسے کافر و زندیق قرار دیا اور دوسرے گروہ نے جن میں رومی اور عطار جیسے عظیم صوفی بھی شامل تھے انھیں ولی اور شہید حق کہا۔

حلاج نے تصوف اور طریق تصوف اور اپنے مخصوص عقائد و نظریات کی شرح میں متعدد کتابیں اور رسائل قلمبند کیے جن کی تعداد 47 سے اوپر ہے۔ اس کا عقیدہ تین چیزوں پر مشتمل ہے۔

  1. ذات الہی کا حصول ذات بشری میں
  2. حقیقت محمدیہ کا اقدام
  3. توحید ادیان

[ترمیم کریں] مخالفین کا موقف

عام مستشرقین کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ وہ شہید ہے۔

اس وقت کے علمائے کرام نے اس کے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اس کے کافر اور زندیق ہونے کی بنا پر یہ واجب القتل ہے ۔

بعض مبینہ اقوال جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھہرا :

نبوت کا دعوی

اس نے مبینہ طور پر نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگا یہ وہی اللہ ہے ( نعوذباللہ ) تووہ یہ کہا کرتا کہ میں اللہ ہوں ، اوراس نے اپنی بہو کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے تواس نے جواب دیا کہ کیا غیراللہ کوبھی سجدہ کیا جاتا ہے ؟

تو حلاج کہنے لگا ایک الہ آسمان میں ہے اورایک الہ زمین میں۔

حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ

حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا یعنی اللہ تعالی اس میں حلول کرگيا ہے تو وہ اوراللہ تعالی ایک ہی چیز بن گۓ ہیں ، اللہ تعالی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔

اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کو مستشرقین و نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تو یہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔

اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسائی کہتے ہيں۔

جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالی نے یہ اشعار سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔

قرآن جیسا کلام بنانے کا دعوی

حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوۓ سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔

کفریہ اشعار

اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے :

اللہ تعالی کے متعلق لوگوں کے بہت سارے عقیدے ہیں ، میں بھی وہ سب عقیدے رکھتا ہوں جو پوری دنیا میں لوگوں نے اپنا رکھے ہیں ۔

یہ اس کا ایک ایسا کلام ہے جس میں اس نے دنیا میں پاۓ جانے والےگمراہ فرقوں میں پاۓ جانے والے ہرقسم کے کفر کا اقرار اوراعتراف کیا ہے کہ اس کا بھی وہی کفریہ عقیدہ ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ ایک کلام ہے جس میں تناقص پایا جاتا ہے جسے صریحا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ، تویہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں توحید اور شرک کا عقیدہ رکھا جاۓ یعنی وہ موحد بھی ہواور مشرک بھی

ارکان اورمبادیات اسلام کے مخالف کلام

حلاج نے ایسا کلام کیا جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اور زکوۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔

مرنے کے بعد انبیاء کی روحوں کا مسئلہ

اس کا کہنا تھا کہ انبیاء کے مرنے کے بعد ان کی روحيں ان کے صحابہ اورشاگردوں کے اجسام میں لوٹادی جاتی ہیں ، وہ کسی کو کہتا کہ تم نوح علیہ السلام اور دوسر ے کو موسی علیہ السلام قرار دیتا اور کسی اور شخص کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔

جب اسے قتل کے لیے لے جایا رہا تھا تووہ اپنے دوست واحباب کو کہنے لگا تم اس سے خوف محسوس نہ کرو ، بلاشبہ میں تیس روز بعد تمہارے پاس واپس آجاؤں گا، اسے قتل کردیا گیا تووہ کبھی بھی واپس نہ آسکا ۔

ان اور اس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پراس وقت کےعلماء نےاجماع کے بعد اس کے کفراور زندیق ہونے کا فتوی صادر کیا ، اوراسی فتوی کی وجہ سے اسے 309 ھـ میں بغداد کے اندر قتل کردیا گيا ، اوراس طرح اکثر صوفی بھی اس کی مذمت کرتے اوریہ کہتے ہیں کہ وہ صوفیوں میں سے نہیں ، مذمت کرنے والوں میں جنید ، اور ابوالقاسم شامل ہیں اورابوالقاسم نے انہیں اس رسالۃ جس میں صوفیاء کے اکثر مشائخ کا تذکرہ کیا ہے حلاج کوذکر نہیں کیا ۔

اسے قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں قاضی ابو عمر محمد بن یوسف مالکی رحمہ اللہ تعالی شامل ہیں انہیں کی کوششوں سے مجلس طلب کی گئی اور اس میں اسے قتل کا مستحق قرار دیا گیا ۔

ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ میں ابو عمر مالکی رحمہ اللہ تعالی کی مدح سرائی کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصور حلاج کوقتل کیا ۔ البدایۃ والنھایۃ ( 11 / 172 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

جس نے بھی حلاج کے ان مقالات جیسا عقیدہ رکھا جن پر وہ قتل ہوا تو وہ شخص بالاتفاق کافراور مرتد ہے اس لئے کہ حلاج کومسلمانوں نےحلول اوراتحاد وغیرہ کا عقیدہ رکھنے کی بنا پرقتل کیا تھا۔

جس طرح کہ زندیق اوراتحادی لوگ یہ کہتے ہیں مثلا حلا ج یہ کہتا تھا کہ: میں اللہ ہوں ، اور اس کا یہ بھی قول ہے : ایک الہ آسمان میں ایک زمین میں ہے ۔

اورحلاج کچھ خارق عادت چیزوں اور جادو کی کئی ایک اقسام کا مالک تھا اوراس کی طرف منسوب کئی ایک جادو کی کتب بھی پائی جاتی ہیں ، تواجمالی طور طور پر امت مسلمہ میں اس کے اندر کوئی اختلاف نہيں کہ جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ تعالی بشرمیں حلول کرجاتا اور اس میں متحد ہوجاتا ہے اوریا یہ کہ انسان الہ ہوسکتا ہے اوریہ معبودوں میں سے ہے تو وہ کافر ہے اوراس کا قتل کرنا مباح ہے اوراسی بات پرحلاج کوبھی قتل کیاگیا تھا ۔ مجموع الفتاوی ( 2 / 480 ) ۔

ایک جگہ پر شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ :

ہم مسلمان علماء میں سے کسی ایک عالم اورنہ ہی مشائخ میں سے کسی ایک شیخ کو بھی نہیں جانتے جس نے حلاج کا ذکر خیر کیا ہو، لیکن بعض لوگ اس کے متعلق خاموشی اختیارکرتے ہيں اس لیے کہ انہیں حلاج کے معاملے کا علم ہی نہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 2 / 483 )۔

[ترمیم کریں] برائے مطالعہ

  • تاریخ بغداد از خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی ( 8 / 112- 141 )
  • المنتظم از ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی ( 13/ 201 -206 ) ۔
  • سیر اعلام النبلاء از امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی ( 14 / 313- 354 ) ۔
  • البدایۃ والنھايۃ از حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی ( 11 / 132- 144 ) ۔


Image:Wiki letter w.png یہ ابھی نامکمل مضمون ہے۔آپ اس میںترمیم کرکے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔