اکبر الہ آبادی
وکیپیڈیا سے
اکبر الہ آبادی | ||
---|---|---|
اکبر الہ آبادی
|
||
ادیب | ||
پیدائشی نام | سید اکبر حسین | |
تخلص | اکبر | |
ولادت | 1846ء | |
وفات | 1921ء | |
اصناف ادب | شاعری | |
ذیلی اصناف | غزل، نظم |
الٰہ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہوگئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میںوکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر مصنف مقرر ہوئے ۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہوگئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ما۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
ابتداء میں غلام حیدر تلمیذ آتش سے اصلاح لی۔ پھر اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید ، اونٹ ، کالج، گانے ، کلیسا، برہمن ، جمن ، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد طبع ہوا۔
[ترمیم کریں] لقب
- لسان العصر
[ترمیم کریں] نمونہ کلام
- بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا۔
(مندجہ بالا قطعے اب سو فی صد درست ہیں)