كھوكھر
وکیپیڈیا سے
کھوکھر جٹوں، راجپوتوں، ارائیوں اور چوہڑوں کے درمیان پایا جانے والا قبیلہ ـ متنوع راجپوت اور جٹرتبے والے قبیلے کے طور پرکھوکھروں کی سب سے ذیادہ تعداد جہلم اور چناب کی وادیوں میں ہے ـ اور بالخصوص جہنگ اور شاہ پور اضلاح میں ـ لیکن چاہے کم تعداد میں ہی سہی وہ زیریں سندھ ستلج اور لاہور کے علاوہ جہلم سے لے کر ستلج تک پہاڑیوں کے دامن میں بھی ملے ہیں ـ بتایا جاتا ہے کہ پنڈ دادنخانکا نام اس کے بانی کھوکھر سردار کے نام پر رکہا گیا ہے جو جہانگیر کے عہد میں ان علاقوں کا راجہ تھا ـ جہلم میں پنڈ دادنخان کے حوالے سے بتایا جاتا ہےکہ گڑھ چتوڑ کے ایک ہادا راجپوت فتح چند نے اسلام قبول کرلینے کے بعداپنا نام دادن خان رکہا اور پنڈ دادنخان کو دوبارہ تعمیر کروایا ـ وہ عہد جہانگیری میں ان علاقوں کا راجہ تھا ـ لیکم کھوکھرسابقہ دور سے ہی خطے کے مالک بتائے جاتے ہیں اور ان کا ذکر آئین اکبری میں ملتا ہے ـ وہ جہنگ میں بھی کبھی جہلم کے مشرق کی طرف ایک وسیع و عریض خطے پر مقتدر تھے ـ گجرات اور سیالکوٹ کے کھوکھروں میں ایک اہم روایت کے مطابق وہ بالاصل گڑھ کراناھ میں آباد ہوئے ،جس کی وہ شناخت نہیں کرسکتے،تاہم مسٹر سٹیڈمین کی رائے میں یہ ضلع جھنگ میں شاہ پور کے جنوب میں واقع کوہ کیرانا ہے ـ اور تیمور نے انہیں وہاں سے بے دخل کیا ـجہلم اور چناب پر میدانوں کے کھوکھروں اک ارتکاز اور دامن کوہ کے کھوکھروں کا وسیع اختلاط اس نظریہ میں کچھ رنگ بہرتا ہے کہ وہ پہاڑوں سے نیچے کی طرف پہیلے نہ کہ جنوب سے اُوپر کی طرف ـ اکبر کے دور میں کھوکھروں کو ہوشیار پور کے دسوئیہ پرگنھ کا یاک اہم قبیلہ دکہایا گیا تھا ـ اور مسلمان تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ تیمور کے حملے کے وقت کھوکھر لاہور پر قابض اور اپر باری دو آپ میں مقتدر تھے ــ کپور تہلہ میں کھوکھروں کی چار شاخیں ہیں سجرائے ، کالُو ، بیر اور جیچـ شاہ پور کے کہوکہوروں کو متعدد شاخوں میں منقسم بتایا جاتا ہے ـ جن میں سے ایک کا نام نسوانہ ہے ـ منٹگمری میں ان کی شاخیں بھٹی اور لڈہن ہیں ـ کھوکھروں کے ماخذ بھی پنجاب کے کسی بھی قبیلے جتنے ہی مبہم ہیں ـ پنجاب کے مشرق میں کھوکھر تسلیم شدہ راجپوت نسل نظر آتے ہیں ـ تاہم جالندہر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ آپنے قبیلچے کے اندر ہی شیخوں اعوانوں اور دیگر ان جیسوں کے ساتھ بیاہ کرتے ہیں نہ کہ آپنے راجپوت پڑوسیوں کے ساتھ ـ لیکن مغرب میں کھوکھر غزنی کے قطب شاہ کے سب سے بڑے بیٹے محمد کی اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں جو اعوانوں کا روایتی مورث اعلی ہے ،اورعموماَ اعوان بھی یہ دعوی تسلیم کرتے ہیں ـ تاہم یہ ان کی اپنی کہانی جیسا ہی من کھڑت ہے ـ صورت چاہے کچھ بھی ہو ، سیالکوٹ کے کھوکھر تو دیگر قبیلوں کے ساتھ باہمی شادیاں کرتے ہیں ، ، مگر اعوان نہیں ـ گجرات میں کچھ زرخیز زمینوں کے مالک کھوکھر بہرت یاکھوکھر سے تعلق ہونے کی بناء پر راجا کہلاتے ہیں ـتاہم وہ اعوانوں کے ساتھ قربت کے دعویدار ہیں اور ان کے اور بھٹیوں کے باہمی شادیاں کرتے ہیں ـ اس کے علاوہ وہ چبھوں کو بھی بیٹیاں دیتے ہیں ، مگر ان کی بیٹیاں نہیں لیتےـ ہندوستان کی تاریخ میں کھوکھروں کا ذکر کافی جگہوں پر ملتا ہے ـ تیمور کے موّرخین کے مطابق کھوکھروں نے اس کی فوج کے خلافمدافعت میآ کافی اہم کردار ادا کیا ـ اکتوبر ١٣٩٨ء میں تیمور نے دریائے بیاس کے کنارےجال کے مقام پر شاہ پور کے سامنے پڑاؤ ڈالا ـ یہاں اسے پتہ چلا کہ کھوکھر قبیلے کے نصرت نے ایک جہیل کے کناروں پر قلعے میں مورچہ قائم کر رکہا تھا ـتیمور نے نصرت پر حملہ کیا اور اس کو شکست دے کر بہت سا مال اسباب اور مویشی لوٹ لئے ـ خود نصرت بھی قتل کردیا گیا ،اس کے کچھ ساتھی بچ کر بیاس پار چلے گئے اس کو بعد ہمیں ،،کافروں کے کمانڈر،،ملک شیخا یا شیخا کھوکھر کا ذکر ملتا ہے ـ جسے تیمور نے کُپلا یا ہر دوار کی وادی میں شکست دی اور قتل کیا تاہم ظفر نامہ اس بات سے اختلاف کرتا ہے ـاس میں علاؤالدین کا تذکرہ شیخ کُکاری کے نائب کے طور پر کیا گیا ـ اس بعد ہم تیمور کی واپسی کے دوران جمیں میں آمد سنتے ہیں جموں کے نواح میں اس نے کافروں کے سات قلعوں پر قبضہ کیا جن کے لوگ ہندوستان کے سلطان کو جذیہ ادا کیا کرتے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو چکا تھا ـ ان میں سے ایک قلعہ ملک شیخا کُرکر کا تھا ، لیکن ظفر نامہ کے مطابق قلعے کا مالک ملک شیخ کوکر کا ایک رشتہ دار شیخا تھا ـ اس طرح معاملہ کجھ واضع ہو جاتا ہے ـ نصرت کھوکھر بیاس کے کنارے قتل ہوا جس کے بشد اس کے بہائی شیخا نے تیمور کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور اس کے ساتھ ہی دہلی چلا گیا ـ کُپلا میں ماراجانے والا ملک شیخا سرے سے کھوکھر تھا ہی نہیں ،لیکن تیمور کی آپ بیتی میں ملکشیخا کو شیخا کھوکھر کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا گیا ہے غالباَ ملکشیخا کا کوئی کھوکھر رشتہ دار تھا جس کا جموں کے قریب ایک چہوٹا سا قلعہ تھا ـ تیمور کے ہاتہوں گرفتار ہونے کے بعد شیخا صفحہ تاریخ سے غائب ہو جاتا ہے ،لیکن ١٤٢٠ء میں کوئی ٢٢ برس بعدجسرت ابن شیخا منظر پر ابہرتا ہے اس برس کشمیر کے بادشاہ نے سندہ پر چڑہائی کیتو جسرت نے حملہ کر کے اس کو شلست دی قید کیا اور سارا مال اسباب آپنے قبضے میں کیا اس کامیابی سے حوصلہ پاکر جسرت دہلی پر قبضے کے خواب دیکہنے لگا ـ تیمور جاتے وقت خضر خان کو آپنا حاکم مقرر کر گیا ـ جسرت نے اس کی وفات کی خبر سنی تو بیاس اور ستلج پار کر کےمینا رہنماؤں کو شکست دی ، لدہیانہ سے لے کر اُروبر تک کا علاقہ فتح کیا اور بہر جالندہر کی طرف بڑہا ـ جسرت نے حکمت سے زیرک خان کو قید کر کے واپس لدہیانے آیا اور بہر سرہند کا رخ کیا ـ سرہند کا قلعہ زیر نہ ہوسکا اور سلطان مبارک شاہ کی پیش قدمی نے اسے پساہو کر لدہیانے جانے پر مجبور کردیا ـ مبارک شاہ کیافواج نے لدہیانہ تک اس کا تعاقب کیا مگر ستلج عبور نہ کر سکیں کیونکہ جسرت نے ساری کشتیوں پر قبضہ کر لیا تھا آخر کار جب افواج نے دریا عبور کر لیا جسرت نے پہاڑوں مین تیکەر کے مقام پر ٹہکانہ کیا ـ لیکن جمّون کے رائے بہیم نے مبارک شاہ کی فوجوں کی راہنمائی کی اور انہوں نے جسرت کے قلعے کو تباہ برباد کر ڈالا ـ البتہ جسرت کی طاقت میں کوئی ذیادہ کمی نہ آئی،کیونکہ جونہی مبارک شاہ واپس دہلی گیا جسرت نو راوی اور چناب پار کئیے اور ایک بڑی فوج کو ہمراہ لاہور پر حملہ کر دیا اس نے چھ ماہ تک لاہور کا محاصرہ کیا ـ شہر کی انتہائی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بندی کی گئی تھی اور بڑی بہادری اور خوبی کے ساتھ اس کا دفاع کیا گیا ـ جب لاہور کو تسخیر کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو جسرت نے محاصرہ اٹہادیا اور کلانور کی طرف چلا گیا ـ اس جگہ سے اس نے جمّوں پر حملہ کودیا گذشتہ معرکے میں اس کے راجہ نے بادشاہ کی فوجوں کی بسال تک راہنمائی کی تھی تاہم جسرت جب راجہ اور اس کیسلطنت پر کوئی تاثر قائم نہ کر سکا تووہ آپنی فوج میں ازسر نو بہرتی کرنے کے لئیے دریائے بیاس کی جانب لوٹ آیا ـ دریں اثناء لاہور میں وزیر ملک سکندر کی سرکردگی میں تازہ فوج کی کمک آ پہنچی اس نے حاکم دیپال پور ملک رجب اور حاکم سرہند اسلام خان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا ،لہذا یہ آپنی آپنی فوج کی قیادت کر رہے تھے متحدہ فوج نو جسرت کے خلاف پیش قدمی کی اور اسے بہت ذیادہ نقصان کے ساتھ پیچھے چناب پار دہکیل گرآپنی پہاڑی پناہ گاہ کی طرف جانے پر مجبور کردیا ـ ہوشیار وزیر نے اب بے راہنما کھوکھروں کا تعاقب کیا اور دریائے راوی کے کنارے کنارے کلانور پہنچ گیا ـ وہاں جموں کے راجہ سے مل کر اس نے بے شمار کھوکھروں کو ڈہونڈ نکالا جو مختلف مقامات پر چہپ گئیے تھے ان سب کو تہہ تیغ کر دیا ان کاروائیوںکے بعد وزیر واپس لاہور آگیا ـ بادشاہ ،وزیر ملک سکندر کی بہادری اور دلیری سے بہت خوش ہوا اس نے اسے لاہور کا صوبیدار مقرر کیا اور محمودوحسن کو واپس دہلی بلابہیجا ـ شاہی فوجوں کو روانہ ہوئےابہی ذیادہ عرصی نہیں ہوا تھا کہ جسرت کھوکھر دوبارہ میدان میں نمودار ہوا ـ اس نے ١٢ ہزار کھوکھروں کی فوج جمع کرکے جموں کے راجا رائے بہیم کو شکست دے کر ہلاک کردیا اور لاہور اور دیپال پور کے صوبوں کو تہہ بالا کر دیا ـ حاکم لاہور ملک سکندر ،لاہور سے اس کے مقابلے کے لئیے روانہ ہوا لیکن اس کی آمد پر جسرت آپنے لوٹ مار کے سامان کے ساتھ دوبارہ پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا ـ دریں اثناء حاکم ملتان ملک ابدالرحیم علاء الملک کے انتقال کے باعث،ملک محمودحسن کو ایک فوج کے ہمراہ ملتان روانہ کیا گیا ـ غالباَ اسی دور میں حاکم کابل شاہ رخ مرزا کی ملازمتمیں ایک مغل سردار امیر شیخ علی نے جسرت کے اکسانے پر بہکر اور ٹہٹہہ پر حملہ کردیا ـ ستمبر١٤٢٧ء میں جسرت کھوکھر نے کلانور کا محاصرہ کر لیا اور ملک سکندر کو شکست دے کر لاہور کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کردیا ـ بادشاہ نے حاکم سامانہ رزق خان اور حاکم سرہند اسلام خان کو سرکردگی میں کمک روانہ کی، لیکن پیشتر اس کے کہ وہ لاہور کی فوج کے ساتھ شامل ہوتے ،ملک سکندر نے جسرت کو شکست سے دوچار کرکے اسے لوٹ مار کے سامان سے محروم کردیا جو اسنے غارت گری کے باعث علاقے سے جمع کیا تھا ـ ١٤٢٩ء میں حاکم کابلامیر شیخ علی نے شاہ رُخ مرزا کے توسط سےپنجاب پر حملہ کردیا کھوکھروں نے اس کے ساتھ مل کر ذیادہ غارت گری شروع کردی ـ لاہور پہنچنے پر اس نے حاکم لاہور ملک سکندر پر ایک سال کی آمدنی کے برابر خراج عائد کردیا ـ اس کے بعد وہ دیپالپور روانہ ہو گیا اور وہاں پہچنے پر علاقے کو غارت کیا ـ فرشتہ کے مطابق اس موقع پر چالیس ہزار ہندؤوںکو قتل کردیاگیا ـحاکم ملتان عمادالملک نے تلمبہ کے مقام پرشیخ علی پر اچانک حملہ کیا لیکن اسے ناکامی ہوئی ــ دریائی راوی کے ساتھ چلتے ہوئے مغل خیر آباد کی طرف بڑہے اور وہاں سے ملتان روانہ ہوئے ،جس پر ٢٩مئی ١٤٣٠ء کو حملہ کیاق گیا ـ جب حملہ ناکام ثابت ہوا تو ملتان کا مکمل محاصرہ کر لیا گیاـ دریں اثناء دہلی سے مظفر خان گجراتی کے بیٹے فتح خان کی قیادت میں کمک آن پہنچی،لہذا امیر شیخ علی قیادت میں مغل فوجوں اور عمادالملک کے تحت دہلی اور پنجاب کی فوچون میں زبردست خونریز جنگ لڑی گئی ـا ابتداء میں مغلوں کو کچح کامیابی ہوئی ،لیکن فتح خان گجراتی کی موت نے ہندوستانیوں میں انتقام کی پیاس کو بڑہا دیا ، لہذاوہ اس مستقل مزاجی اور مضبوط ارادے کے ساتھ لڑے کہ مغلوں کو شکست ہوگئی ـ فاتحین نے ان کا لگاتار تعاقب کیا اور ان کی ساری فوج کو یا تو تہہ تیغ کر دیا گیا یا وہ دریائے جہلم کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب گئی ـ امیر شیخ علی آپنے چند ساتہیں کے ہمراہ کابل کی طرف فرار ہوگیا ـ ١٤٣٢ء میں نصرت خان گرگندز کو لاہور کا صوبیدار مقرر کیاگیا ـ پنجاب پر اس سال اور اگلے سال کے دوران ملک جسرت کھوکھر اور امیر شیخ علی نے حملہ کیا تاہم شاہی فوجوں نے ان حملوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ پسبا کر دیا ـ ١٤٣٦ء میں سلطان محمد شاہ نے شیخا کھوکھر کے خلاف ایک مہم بہیجی جس نے اس کے علاقوں میں لوٹ مار مچائیـ ١٤٤١ء میں سلطان نے بہلول خان کو دیپالپور اور لاہور کا حاکم مقررکر کے اسے جسرت کھوکھر کے خلاف بہیجا ، مگر جسرت نے صلح کرلی اور اسے دہلی کے تخت کے خواب دیکھائے اس کے بعد کھوکھر طاقت کونامعلوم وجوہ کی بنا پر زوال آگیا ـ
اکبر کے عہد میں باری دو آب میں لاہور کی سرکار کے ٥٢ میں سے ٥ محل چنہٹھ دوآب میں ٢١ پرگنوں میں سےسات کھوکھروں کے پاس تھے ـاس کے علاوہ ایک ایک محل بست جالندہر اور رچنا دو آپ میں بھی تھا ـ ملتان کی دیپالپور سرکار میں دس میں سے تین محل ان کے تھے ریورٹی نے اُس دور میں ان کی تعداد دو لاکھ نفوس بتائی ـ مندرجہ بالا تفصیلات کے باوجور کھوکھروں کی حثیت کے ماخذ سے پردہ نہیں اُٹہتا ــ
گورداسپور کے کاٹل راجپوتوں کے متعلق بیان کیا گیا کہ اوّلین اسلام قبول کرنے والوںمیں سے کچھ کو کھوکھر کہاگیا ، لیکن وہ کہتے ہیں ہمارے اجداد میں سے ایک ریاست جمّوں میں واقع منگلا دیوی کے قلعے میں آباد ہوا اور بہر خیر پور پر قابض ہوگیا ، خیر پور کی نسبت سے اس کی اولادیں کھوکھر کہلوانے لگیں ـ انہوں نے غزنی کے محمد کے عہد میں اسلام قبول کیا ـ نیز کاٹل ان کے ساتھ اس لئے شادیاں نہیں کرتےکیونکہ کھوکھر محمد غزنی کی کاٹل بیویوں کی اولاد تھے ـ (٢) چوہڑوں کی ایک شاخ جسے کھوکھر راجپوت بتایا جاتا ہے ـ کھوکھر راجپوت کی بیوی نے قبر میں ایک بیٹے کو جنم دیا جس کی جان تو بچ گئی لیکن ایک لاش کی چہاتیوں سے دودہ پینے کے باعثوہ ذات باہر ہوا اور چُوہڑا لڑکی سے شادی کی ـ کھوکھر چُوہڑے اپنی مورث اعلی خاتون کے احترام میں کسی بھی جانور کا دل نہیں کہاتےـ
کھوکھر یا كھوكر جاٹوں كى ایک گوت ہے جو كہ ہندوستان میں اترپردیش اور پنجاب میں پائے جاتے ہیں ـ جاٹوں كے علاوہ کھوکھر لوگ راجپوتوں میں بہى پائے جاتے ہیں ـ علی گڑہ اور متہرا كے اضلاح میں کھوکھر جاٹوں كے تقریبا باون گاؤں ہیں ـ سكہـ دہرم كے گرو گروہرگوبند جى كے ساتہى بہائى روپ چند جى بہى کھوکھر تھے جن كے نام كا ایک گاؤں بتہنڈا ڈسٹرک میں واقع ہے ـ پاكستان میں کھوکھر لوگ دین اسلام كے پیرو كار مسلمان ہوتے ہیں ـ بیرونى حملہ آور محمد غورى كے ١١٩١ ء والے حملے میں کھوکھر لوگوں نے محمد غورى كو برى طرح مارا تھا ـ مگر 1192ء والى جمگ میں كھوكھر لوگوں نے حصہ نہیں لیا تھا اس لئیے رائے پتہورا كو محمد غوری سے شكست ہوئى ـ