وجودیت

وکیپیڈیا سے

وجودیت کی تحریک پر تین افراد یعنی آندرے ژند، سگمنڈ فرائڈ، اور سارتر کا گہرا اثر ہے۔

وجودی مفکرین اجتماعی زندگی کے مقابلے میں ”فرد“ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے فکر و فلسفے میں محض انسان کا انفرادی وجود اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک طبقات یا گروہ ”فرد“ کی حیثیت اور آزادی کے دشمن ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ طبقات اور گروہ اُسے ہرطرح کی ذمہ داری سے آزاد کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس وجودی مفکرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر فردآزاد ہے اور اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ انتخاب کی اس آزادی اور ذمہ داری ہی سے ہر فرد ذہنی اضطراب کاشکار ہوجاتا ہے اور اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس آزادی انتخاب کے باجود یہ فرد اپنے انجام کو نہیں جانتا۔ اس کا عمل زمان و مکان کے دائرے میں محدود و مقید ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض اوقات اپنے عمل کے نتیجے میں اسے تباہی اور موت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ ہمارا فیصلہ صحیح ہے یا غلط۔

سب ہی وجودی مفکرین موت کی المناکی کوبحث کا خاص موضوع بناتے ہیں۔ ہائی ڈیگر کے نزدیک موت کی مستقل آگہی سے اصل زندگی ترتیب پاتی ہے۔ موت جس آسانی سے زندگی او ر وجود کا خاتمہ کرتی ہے ۔ اس سے زندگی کی لایعنیت اور کھوکھلا پن ظاہر ہو جاتا ہے۔ سارتر زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے

” ہمارا وجود بغیر کسی سبب و معقولیت اورضرورت کے تحت دنیا میں نظرآتا ہے۔ تمام زندہ افراد بغیر کسی وجہ کے دنیا میں آتے ہیں۔ مجبوریوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھاتے زندہ رہتے ہیں۔ وہ ایک دن حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔"

اس ضمن میں بعض وجودی مفکرین انسان کی تنہائی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خواہ کیسا ہی معاشرتی اور سیاسی نظام قائم ہوجائے ۔ انسان کی تنہائی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ ان کے نزدیک انسان تنہا اور نامعقول واقع ہوا ہے۔ اور زندگی کی نامعقولیت کو کسی نظام سے دور نہیں کیا جاسکتا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وجودی تصورات ہماری فکری قوتوں کو مہمیز دیتے ہیں۔ انسانی وجود کے مسائل پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ انسانی ذہن اور خیال کے ارتقائیں ہماری رہنمائی کی سعی کرتے ہیں۔ تاہم یہ تمام تر تصورات وسیع تر مفہوم میں منفی تصورات ہی کہے جا سکتے ہیں۔ سارتر نے اگرچہ منطق کا سہارا لے کر غیر حقیقی تصورات کا دفاع کیا ہے۔

مجموعی طور پر وجودی تصورات انسان میں مایوسی ، ناامیدی ، بے دل اور منفی رجحانات پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ لیکن وجود کے مسائل پر غور و فکر کرنا ذہنی آزمائش کا کھیل تو ہوسکتا ہے لیکن اپنے مضمرات کے لحاظ سے اسے بے ضرر نہیں قرار دیا جاسکتا۔

ایک زمانہ تھا ۔ جب یورپ کے علمی حلقوں میں وجودیت اور وجودی تصورات کی بحث نے مستقل موضوع کا درجہ اختیار کر رکھا تھا۔ اربابِ علم میں ایک بڑی تعداد ان نظریات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وجودیت کے بارے میں عام تصور یہ تھا کہ ہر وہ تحریک جس میں فرد کی تباہی او ر بربادی کا ہولناک نقشہ کھینچا جاتا ہے ۔ ہر وہ ناول جس کےکردار بدی اور ذہنی اختلاط کے نمونے دکھائی دیتے ہیں اور جو ہماری شخصیت کا ارتفاع کرنے کے بجائے اسے مایوسی اور پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ وجودی ادب کا شہ پارہ ہے ۔ مختصر طور پر ہم اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ وجودی ادب کی بنیادی خصوصیت زندگی کا المیاتی احساس پیدا کرنا ہے۔