روزہ کیوں رکھیں؟ قرآن کی روشنی میں
وکیپیڈیا سے
روزہ (۲)
قرآن میں روزہ کا حکم :
قرآن نے جس آیۂ کریمہ میں روزے کا حکم بیان فرمایا ہے اسی آیت میں دو مطلب کی اور بھی وضاحت کی ہے ۔اول یہ کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسے امت مسلمہ سے قبل دیگر امتوں کے لیئے بھی فرض قرار دیا گیا تھا”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ یعنی روزہ کے ذریعے انسان کو جوھدف حاصل کرنا ہے وہ امت مسلمہ سے مخصوص نھیں ہے بلکہ دیگر امتوں کے لیے بھی تھا ۔
یھاں طبیعی طور پر انسان کے ذھن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ ھدف کیا ہے ؟اور حکم روزہ کا فلسفہ کیا ہے ؟ اسمیں کون سے اسرار اور رموز پوشیدہ ہیں جنکی بنا پر اسے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ اس سے قبل دیگر امتوں پر بھی واجب قرار دیا گیا ؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے قرآن نے اس آیت کے آخری حصہ میں روزہ کا فلسفہ بیان کیا ہے ۔” لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تاکہ شاید تم صاحب تقوی بن جاو۔ پس ایک ھی آیت میں قرآن نے تین چیزیں بیان کی ہیں : ایک روزہ کا حکم کہ تم پر روزہ واجب ہے ”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ“ دوسرے سابقہ امتوں کا تذکرہ کہ ان پر بھی روزہ واجب تھا ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ تا کہ جن افراد کے لئے یہ حکم سخت اور ناگوار ھو وہ نفسیاتی طور پر اسے آسان اور قابل عمل محسوس کریں ۔ تیسرے روزے کا فلسفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون “ تا کہ انسان کی نظر فقط روزہ کے ظاھر پر نہ ھو بلکہ وہ اسکی حقیقت اور روح تک پہنچ سکے ،روزے کے اسرار کو درک کر کے اسکے اھداف کو حاصل کر سکے ۔ روزہ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے ہے لھذا اس آیت کا لھجہ بھی نھایت مشفقانہ ہے ۔جس طرح ایک ماں اگر اپنے مریض بچے کو کوئی ایسی تلخ دوا پلانا چا ہے جس کے بغیر اسکا علاج ممکن نہ ھو تو وہ پہلے بچے کو پیار سے بلاتی ہے پھر اسے نھایت نرمی کے ساتھ دوا پینے کو کہتی ہے، دوسرے بچوں کی مثال دیتی ہے پھر اسکے فوائد بیان کرتی ہے کہ اگر دوا پی لو گے تو بالکل ٹھیک ھو جاؤ گے ۔ قرآن نے فرمایا ”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ امَنُوا “ صاحب ایمان کہہ کر ایک محترمانہ لہجے میں خطاب کیا،پھر نرمی سے حکم بیان کیا -”کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَام “تم پر روزہ فرض کردیاگیا ہے ، ”کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ“ جس طرح تم سے قبل دیگر امتوں پر بھی فرض کیا جا چکا ہے ،اسکے بعد روزے کی غرض ،غایت اور فلسفہ بیان کیا ”لعلّکم تتّقون تاکہ انسان نہ صرف یہ کہ اس عمل میں تلخی محسوس نہ کرے بلکہ فلسفہ اور اسرار سے واقف ھونے کے بعد اسی سخت اور دشوار عمل میں اسے لذت کا احساس ھونے لگے۔ فلسفہ بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ ممکن ہے انسان کے ذھن میں اور بہت سے سوال اٹھیں اور اگر ان سوالوں کو صحیح جواب نہ ملے تو وہ سوال اعتراض کی شکل میں تبدیل ھو جائیں مثلاً: 1. روزہ رکھنے کی صورت میں انسان کو معمول کی زندگی ترک کرنی پڑتی ہے جو اس کے لئے سخت ھے۔ 2. روزہ رکھنے سے انسان کمزور ھو جاتا ہے ۔ 3. دن بھر کی بھوک اور پیاس اگر نا قابل برداشت نھیں توناگوار اور سخت ضرور ہے 4. کھانا اور پانی انسانی جسم کا تقاضا ہے جو اسے ملنا چاھیے۔ 5. اپنی محنت سے حاصل کی ھوئی حلال چیزیں انسان پر کیوں حرام ھو جاتی ہیں ؟ 6. یوں تو تمام عبادتوں میں پابندیاں ہیں لیکن رمضان میں انسان ایک مہینے تک شدید قسم کی پابندیوں میں مقیدھو جاتا ھے۔ 7. ایک اعتراض جو روزہ کے علاوہ تمام عبادتوں بلکہ پورے دین پر کیا جاتا ہے وہ یہ کی اگر دین اوراحکامِ دین فطرت کے مطابق ہیں تو ان کو انجام دینے میں سختی و ناگواری کا احساس کیوں ھوتا ھے؟ 8. اگر انسان روزہ نہ رکھے تو اس کے اندر کون سا نقص پیدا ھو جاتا ھے؟
مندرجہ بالا سوالات و اعتراضات پر گفتگو کرنے سے پہلے اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اسطرح کے سوالات اور اعتراضات در حقیقت روزہ کے اسرار و فلسفہ سے ناواقفیت کی بنا پر ہیں لھذا ابتداءً مذکورہ اعتراضات و مسائل پر گفتگو کے دوران انشاء اللہ بعض اسرار بیان کئے جائیں گے ،اسکے بعد روزہ کے بقیہ اھم اسرار میں سے ان بعض اسرار کی طرف اشارہ ھو گا جو قرآن و احادیث میں بیان ھوئے ہیں ۔
ترک معمولات یا زندگی کی یکسانیت سے نجات ؟ روزے پر ایک سنجیدہ قسم کا اعتراض یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی کے معمول(Routine) میں خلل(Disturbance) ایجاد ھو جاتا ہے اور اسکی روزمرہ زندگی موجودہ نظم (Discipline) سے خارج ھوجاتی ہے لھذا بہت سے افراداپنے روزہ نہ رکھنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ھمارے کام کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ ھم روزہ نھیں ر کہ سکتے اور اس طرح اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں ،بلکہ بعض اوقات اس بات پر افتخار کرتے ہیں کہ ھم اھل کسب و کار ہیں ،ھماری زندگی کا ایک معمول ہے جسے ترک کر کے روزہ رکھنا ھمارے لئے سخت یا ناممکن ہے گویا وہ دبے لفظوں میں یہ تاثر دینا چاھتے ہیں کہ روزہ رکھنا یا اس طرح کے دیگر امور کو انجام دینادر حقیقت ھمارے لئے مناسب نھیں ہے بلکہ یہ ریٹائرڈ اور بے کسب و کار لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس ان کو انجام دینے کے لئے کافی مقدار میں وقت موجود ھوتاہے ۔ اب اگر ھم انسان کی اس ذھنیت کی تحلیل (Analyse)کریں اور تلاش کریں کہ اس میں یہ تفکر کہاں سے پیدا ھواتو معلوم ھوگا کہ یہ طرز فکر در حقیقت روزہ اور اسکے علاوہ دیگر بہت سی عبادتوں کے ایک بہت ھی اھم فلسفہ اور راز سے نا آگاھی کا نتیجہ ہے اور وہ ہے روز مرہ زندگی اورمعمولات کے زندان سے نجات ،جسکی وضاحت کے لئے ایک مختصر سی گفتگو ضروری ہے ۔ انسان اپنی زندگی میں ایک طرح کے خود ساختہ معمولات (Routine) اورروز مرہ عادتوں کے ایک دائرے (Circle) میں گرفتار ہے اور معمولات کا یہ دائرہ اتنا مضبوط ہے کہ یہ انسان کو باھر جانے کی اجازت نھیں دیتا ۔ھر طبقے کے لئے اپنی روزمرہ زندگی کی عادتوں کا ایک خاص دائرہ ہے ،تاجروں کا اپنا الگ دائرہ ہے ،سروس پیشہ افراد کا الگ،ٹیچرس(Teachers)کا الگ ،اسٹوڈنٹس(Students)کا الگ اور کسانوں کا الگ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا مخصوص دائرہ ہے ، لیکن ایک چیزسب میں مشترک ہے کہ سب کے سب اپنی ان روز مرہ عادتوں کے دائرے میں سختی سے گرفتار ہیں ، مثلاًصبح اٹھکر ناشتہ کرنا پھررزق کے انتظام میں بازار،آفس،کھیت یا کسی تعلیمی وغیر تعلیمی ادارے کی طرف چلے جانا، وھاں بھی کچھ معمول کے کام انجام دینا ،واپس آکر کچھ روز مرہ کے امور انجام دینا مثلاً کھانا پینا،چند لوگوں سے کچھ محدود دائرے میں باتیں کرنا، ٹیلی ویژن وغیرہ دیکھنا اور پھر نیند کی آغوش میں چلے جانا تاکہ تر و تازہ ( Refreshed and Recharged) ھوکر پھرکل اسی معمول کی ( Routine ) میں مشغول ھوجائیں۔ اسطرح انسان کی زندگی ایک مثلث (triangle)کے گرد چکرلگا رھی ہے جس کے تین زاویوں میں سے وہ کسی ایک زاویے پر اپنا قیمتی وقت گذار رھا ھوتا ھے۔ 1. کھانے کے لئے مواد فراھم کرنا۔ 2. فراھم شدہ مواد کو کھانا۔ 3. مزید مواد فراھم کرنے کے لئے استراحت کرنا۔ یہ سو فیصد ایک حیوانی نظام زندگی (system of life) ہے اور اس میں اگر کچھ چیزیں اور اضافہ کر لی جائیں مثلااس مثلث سے بچے ھوئے وقت اور اسباب کو اگر وہ اپنی پسندیدہ تفریح ،عیاشی اور خود نمائی میں گزارے تو حیوانی زندگی سے کہیں زیادہ بد نما صورت حال پیدا ھو جاتی ہے ۔وہ انسان جسے مسجود ملائکہ بننے تک کا سفر طے کرنا تھا اسکی ایک عجیب و غریب تصویر بن جاتی ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ پھر وہ اسی زندگی پر افتخار کرتا ہے کہ ھماری مشغولیت اجازت نھیں دیتی کہ ھم کسی ایسے عمل کو انجام دیں جو ھمارے معمول (Routine) سے خارج ھو۔ روزے اور اسکے علاوہ اور بہت سے احکامات کا ایک بڑامقصد اور فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو اسکی روزمرہ عادتوں کے نھایت تنگ اور محدود دائرے سے خارج کیا جائے ۔اسکے کچھ اھم اھداف ہیں جو ذیل میں بطور اشارہ مختصرا بیان کیے جارہے ہیں ۔
(۱) خود شناسي : روزمرہ زندگی کی گرفتاریاں انسان کو اجازت نھیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنے آپ کو پھچاننے کی کوشش کرے ۔اب اسے روزہ کے ذریعے اپنے روٹین سے نکالا گیا ہے تا کہ اپنے آپ کو پانے کی کوشش کرے، اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ اسے اتنی قوتوں ،صلاحیتوں اور استعداد (Abilities) کے ساتھ کیوں پیدا کیا گیا؟ (۲) جهان شناسي : انسان اپنے باھر کی دنیاکو دیکھے کہ اتنی وسیع کائنات اور اس میں موجود لا محدود نعمتیں کس لئے ہیں اور ان سب کو کیوں انسان کی خدمت میں قرار دیا گیا ھے؟ (۳) هدف شناسي : انسان اگر اپنے اندر موجود صلاحیتوں و قوتوں اور اس عظیم کائنات کی وسعتوں کو کسی حد تک پھچان لے گا تو لا محالہ اپنی منزل اور اپنے اھداف کو بھی پھچان لے گا کہ ان فوق العادہ صلاحیتوں اور ان بے شمار نعمتوں کے ذریعے اسے کن اھداف تک پہنچنا ھے، پھر ایک خود شناختہ انسان کی حرکت کا رخ اس مذکورہ شھوانی مثلث کی طرف نھیں ھو گا کیونکہ یہ شھوات وخواھشات خدا نے انسان کے اندراس لئے رکھی ہیں تا کہ یہ ناقص مخلوق اپنے اندر تکامل پیدا کر سکے مثلا شھوت جنسی کو اس لئے قرار دیاہے تا کہ انسان وجود میں آسکے یعنی اسکے ذریعے تولید نسل کا سلسلہ جاری رہے ۔خواھش آب و غذا اس لئے رکھی گئی تا کہ انسان انھیں استعمال کر کے اپنے آپ کو باقی رکہ سکے لیکن صرف تو لید نسل اور اپنے وجود کی بقاھی انسان کا کل ھدف نھیں ہے ،بلکہ اسکا اصل ھدف اپنے اس ناقص وجود کو کمال تک پھنچانا ہے ۔اسطرح خود شناسی ، جھان شناسی اور ھدف شناسی کے بعد انسان کی حرکت کا رخ کمالات کی طرف مڑ جاتا ہے جو اسکے اندر کا ایک فطری تقاضا ہے ۔ (۴) خدا شناسي :
کسب کمالات بھی انسان کا آخری ھدف نھیں ہے ۔اسکا آخری ھدف ان کمالات سے متصف ھو کر کمال مطلق یعنی ذات خدا تک پھونچنا ہے ----”یَا اَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہ انسان کا سفر خدا کی طرف ہے اور اسے خدا سے ملاقات کرنی ہے ۔یہ انسان کا نھائی ھدف (Last Target) ھے، یہ ھدف کثرت عبادات سے نھیں بلکہ عبادات کے باطن اور اسرار سے حاصل ھوتا ہے ،عبادات کا باطن اپنی تطھیرکرکے کمالات کو حاصل کرنا ہے ،پس انسان اپنے عمل کے ذریعے جتنا پاکیزہ اور با کمال ھو گا اتنا ھی ذات خدا سے قریب ترھوگا”اِلَیْہ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ خدا کی طرف پاکیزہ نفوس بڑے ہوتے ہیں اور ان کے بلندکرنے کا وسیلہ اسکے اعمال صالح ہیں ۔عمل صالح یعنی ایسا عمل جس میں انسان کو باکمال اور عظیم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ھو،اسطرح خودشناسی و جھان شناسی انسان کو ھدف شناسی اور کمال طلبی کے راستے سے خدا شناسی تک لے آتی ہے ۔
روزہ در حقیقت خود شناسی سے خدا شناسی تک سفر کرنے کی ایک مشق ہے اورایک مھینہ مشق کرنے کے بعدانسان کو پورے سال اسی سفر کو جاری رکھنا ھے۔ (۵) دشمن شناسي : اس سفر کی راہ میں ایک بہت قوی اورنامرئی دشمن بھی موجود ہے جس نے خدا کی عزت کی قسم کھا کر اعلان کیا ہے کہ صراط مستقیم پر بیٹھ کر اس راہ کے مسافروں کو گمراہ کرے گا”۔ ۔ ۔ ۔ لَاَقْعُدَنَّ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَآتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ ۔ ۔ ۔ ۔“ صراط مستقیم پر بیٹھ کرمیں بندگان خدا کو ہر سمت سے گمراہ کروں گا، لھذا ایسے دشمن کی عمیق شناخت کے بغیرانسان اس سفر کو طے نھیں کر سکتا ،یہ ایک ایسا دشمن ہے جسکا سب سے بڑا اسلحہ خود انسان کے اندر موجود ہے ”اعدی عدوک نفسک التی بین جنبک“ تمھارا سب سے بڑا دشمن خودتمھارا نفس ہے جوخود تمھارے اندر موجود ہے ،یہ شیطان کا اندرونی اسلحہ ہے ، اور اگر اپنے وجودسے باھر دیکھیں تو اسکے بہت سارے لشکر موجود ہیں جن میں انسان اور جنات دونوں شامل ہیں ”من الجنّۃ و النّاس پس اتنے بڑے دشمن جن کا قرآن نے ”عدو مبین“ کہہ کرتعارف کرایا،کے ہوتے ھوئے اس سفر کو طے کرنا بہت آسان نھیں ہے ۔ آج شیطانی طاقتوں نے میڈیا ، سیٹیلائٹ ، انٹرنیٹ اور یوروپین کلچر کے ذریعے انسان سے اسکے کمال کا راستہ چھین لیا ہے آج کا انسان یہ اچھی طرح محسوس کر رھا ہے کہ انٹرنیٹ کے عھد کی نسلیں انسانی اقدار (Human Values) سے خالی ھوتی جا رھی ہیں مثلاًغیرت ایک قدر (Value) ہے جو انسان کے کمال میں دخیل ہے لیکن ایک جوان جس نے ساری رات انٹرنٹ کی فحش سائٹوں میں گزاری ہے اسے اگر صبح کے وقت عراق کے ابو غریب جیل کی تصویریں دکھائی جائیں تو اسے ذرا بھی غیرت نھیں آتی ،جبکہ انسانی غیرت کا معیار یہ ہے کہ لشکر معاویہ نے یمن میں یھودی عورت کے پیروں سے پازیب اتارا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس عمل پر ایک انسان غیرت سے مر جائے تو وہ اسکا مستحق ہے۔ روزہ کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسان اس مھینہ میں اپنے ان دشمنوں کے خلاف آمادہ ھو جنھوں نے اس سے اس کے تکامل کا راستہ چھین لیا ہے ، دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ پانے کے لئے صبر و استقامت کی مشق کرے ،شیطانی فریب سے بچنے وھوائے نفس پر غالب ھونے کے لئے جھاداکبر کی مشق کرے ، شایداسی لئے اس مبارک مھینے میں شیطان کو سخت زنجیروں میں مقید کر دیا جاتا ہے تا کہ انسان کی اس آمادگی میں رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے ۔
سوالات
1. قرآن مجید میں روزے کے بارے میں کیا حکم آیا ہے؟
2. " لعلکم تتقون " کس بات کی طرف اشارہ ہے؟
3. روزہ رکھنے سے معمول کی زندگی پر فرق پڑتا ہے کیا یہ بات صحیح ہے؟
4. روزہ انسان کو روز مرہ کی زندگی سے نجات دیتا ہے اسکے کیا اہداف ہیں؟ صرف تین اہداف کو بیان کریں۔
5. روزہ اور ہدف شناسی کا تعلق بیان کریں؟
6. کیا روزہ کے ذریعے انسان خدا تک رسائی حاصل سکتا ہے؟
7. انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ اور وہ کس کیا کرتا ہے؟
اس مقالہ کے بارے میں اپنی رائے letstalkfor@hotmail.com پر بھیجیں