اے بی ایس جعفری

وکیپیڈیا سے

پیدائش:1927ء

وفات:نومبر2003ء

پورا نام اختر بن شاہد جعفری تھا اور وہ بھارت کے شہر بدایوں کے حکیم سید شاہد علی کے صاحبزادے تھے۔ ان کا خاندان پاکستان آنے سے پہلے مرادآباد جا بسا تھا۔

اے بی ایس جعفری
اے بی ایس جعفری

انہوں نے انیس سو سینتالیس میں دہلی کی ایک نیوز ایجنسی سے بحیثیت رپورٹر صحافت کا آغاز کیا اور اسی سال پاکستان کے قیام کی تقریب کی رپورٹنگ کرنے کے لیے پاکستان آئے لیکن پھر اس نئے ملک سے واپس نہیں جا سکے۔

انیس سو اٹھاون میں انہوں نے انگریزی کے معروف ترقی پسند اخبار روزنامہ ’ پاکستان ٹائمز‘ سے بطور رپورٹر شمولیت اختیار کی اور مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کے بعد انیس سو تہتر میں انہیں اخبار کے راولپنڈی ایڈیشن کی ادارت کے لیے منتخب کیا گیا۔

انیس سو اٹھہتر سے انیس سو اٹھاسی کے عرصے میں وہ’ کویت ٹائمز‘ کے مدیر رہے اور بعد میں پاکستان واپس آ کر روزنامہ ’ دی مسلم‘ اور پھر ’ پاکستان آبزرور‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

انہوں نے کئی ایسے اخباروں کا اجراء بھی کیا جو زیادہ عرصہ شائع نہ ہو سکے۔ ان اخباروں میں کراچی سے شائع ہونے والا روزنامہ ٹریبیوں سرِ فہرست ہے۔

انہوں نے کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’دی فنانس‘ کی ادارت بھی کی لیکن اس اخبار کے مالکان کی وجہ سے کبھی بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ نہیں لیا یہی وجہ تھی کہ اس اخبار میں کبھی بھی وہ رنگ نمایاں نہیں ہو سکا جو ان کی مخصوص ادارت کی شناخت تھا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے لیے بھی کام کیا تاہم بعد میں خود کو پاکستان کے روزنامہ ڈان ، روزنامہ نیشن اور ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس کے لیے تـجزیئے لکھنے تک محدود کر لیا۔

’کویت ٹائمز‘ کی ادارت کے زمانے ہی میں انہیں گلے کے کینسر کا عارضہ لاحق ہوا اور اسی سے موت واقع ہوئی۔

وہ آزادئی صحافت کے لیے کام کرنے والے پاکستان کے سرکردہ صحافیوں میں شامل رہے اور جنرل ضیاالحق کے دور میں لکھی گئی ان کی تحریروں کو آج بھی پڑھا اور یاد کیا جاتا ہے۔

وہ دس کتابوں کے مصنف تھے اور ان کی تالیف ’ جناح بٹریڈ‘ یا جناح سے بے وفائی پاکستان کی تشکیل کے مقاصد اور ان سے انحراف کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے اور اس بناء پر خاصی متنازعہ بھی رہی ہے۔کراچی میں انتقال ہوا۔