دیوانٍ غالب/غزلیات/ردیف ے/ردیف ے غزل 221 تا 235

وکیپیڈیا سے

دیوانٍ غالب


فہرست

[ترمیم کریں] فہرست غزلیات ردیف ے حصہ پنجم

== 221 ==


ہر قدم دورئِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دُود ، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو ، سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے ، جادۂ صحراۓ جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو!
پُر ہے سایے کی طرح ، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں ، گر تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ ، مثلِ گُلِ شمع ، پریشاں مجھ سے

بیکسی ہاۓ شبِ ہجر کی وحشت ، ہے ہے !
سایہ خُورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں ، تجھ سے
آئینہ دارئ یک دیدۂ حیراں ، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے ، اسد!
ہے چراغاں ، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے


[ترمیم کریں] 222

نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش ! یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ، اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چُھپائے نہ بنے

اِس نزاکت کا بُرا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا
ہاتھ آویں ، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں ؟ کہ نہ آؤ ، تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب!
کہ لگائے نہ لگے ، اور بُجھائے نہ بنے


[ترمیم کریں] 223

چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے

جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے

ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یارب ! کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ گِرانجانی کرے

میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
مُوۓ شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

خطِّ عارض سے ، لکھا ہے زُلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے


[ترمیم کریں] 224

وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے

کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے

دِکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

پلا دے اوک سے ساقی ، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا ، نہ دے شراب تو دے

اسد ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے
کہا جو اُس نے ، ”ذرا میرے پاؤں داب تو دے“


[ترمیم کریں] 225

تپِش سے میری ، وقفِ کش مکش ، ہر تارِ بستر ہے
مِرا سر رنجِ بالیں ہے ، مِرا تَن بارِ بستر ہے

سرشکِ سر بہ صحرا دادہ ، نورالعینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا اُفتادہ بر خوردارِ بستر ہے

خوشا اقبالِ رنجوری ! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں ، طالعِ بیدارِ بستر ہے

بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے

ابھی آتی ہے بُو ، بالش سے ، اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو ، خوابِ زلیخا ، عارِ بستر ہے

کہوں کیا ، دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں ، غالب!
کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر ، خارِ بستر ہے


[ترمیم کریں] 226

خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
غرورِ دوستی آفت ہے ، تُو دُشمن نہ ہو جائے

سمجھ اس فصل میں کوتاہئ نشوونما ، غالب!
اگر گُل سَرو کے قامت پہ ، پیراہن نہ ہو جائے


[ترمیم کریں] 227

فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے

ہاں ، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے" ، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ ، غم نہ ہووے
اُردی جو نہ ہو ، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد !
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

ہستی ہے ، نہ کچھ عَدم ہے ، غالب!
آخر تُو کیا ہے ، ”اَے نہیں ہے؟“


[ترمیم کریں] 228

نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اِس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اِک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے


[ترمیم کریں] 229

ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے

در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے

یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالب کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے


[ترمیم کریں] 230

کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گلچیں ہے

کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے

بجا ہے ، گر نہ سُنے ، نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

اسد ہے نزع میں ، چل بیوفا ! برائے خُدا!
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے


[ترمیم کریں] 231

کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

مرتے مرتے ، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے

عارضِ گُل دیکھ ، رُوئے یار یاد آیا ، اسد!
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے


[ترمیم کریں] 232

دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے ، کیا کہیے!

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے

سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے کیا؟ کہیے!

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے؟

حَسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے
سِتم ، بہائے متاعِ ہُنر ہے ، کیا کہیے!

کہا ہے کِس نے کہ غالب بُرا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے


[ترمیم کریں] 233

دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے

بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے

کیوں نہ ہو بے التفاتی ، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے

میرے غمخانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی ، مجھے

بدگماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا ، کاشکے!
اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے

وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟

ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری ، واہ واہ !
پھر ہُوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے

دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نَو زندگی
میرزا یوسف ہے ، غالب ! یوسفِ ثانی مجھے


[ترمیم کریں] 234

یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ "یارب" ، مجھے
سُبحۂ زاہد ہوا ہے ، خندہ زیرِ لب مجھے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ دَر ، رہنِ سخن
تھا طلسمِ قُفلِ ابجد ، خانۂ مکتب مجھے

یارب ! اِس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے!
رشک ، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں!
آرزو سے ، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

دل لگا کر آپ بھی غالب مُجھی سے ہوگئے
عشق سے آتے تھے مانِع ، میرزا صاحب مجھے


[ترمیم کریں] 235

حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے

کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروۓ تن کی آزمائش ہے

نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے

وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے“
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے

رہے دل ہی میں تیر *، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے

نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُرشکن کی آزمائش ہے

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخئ کام و دہن کی آزمائش ہے

وہ آویں گے مِرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالب!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش* ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ مہرمیں "رہے گر دل میں تیر"

اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجودہ املا کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔





دیوانٍ غالب