روزے کا کیا فلسفہ ہے؟

وکیپیڈیا سے

روزہ (۱)


روزه كا فلسفه: ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ہے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ہے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ہے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل انجام ہی نھیں دیتا یاپھر کسی جاذبہ اور خوف مثلا ٔ بھشت کی آرزو اور عذاب سے خوف کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ہے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ہے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھاکہ اس عمل کو انجام دیئے بغیرہی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے ا سرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنا یہ ھوتی ہے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنم سے بھی نجات مل جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکم خداکا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبدا انجام دے لیکن اس طرح تعبدا عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ہے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اسکے تعبد میں دوام اور تسلسل پیدا نہیں ھو سکتا۔خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ہے کہ وہ احکام الھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف ، بے جان اور بے روح عمل ھوتا ہے ۔انسان تعبدا ایک عمل کو انجا م ضرور دے لیتا ہے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رہتا ہے یہ نکتہ انسان کے لئے بہت اھم ہے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلانماز پڑھ رھا ھو ، روزہ رکھ رھا ھو، انفاق کر رھا ھو، حج، جھاد، امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات، ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلانماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اسکی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کو متحرک کرتی ہے اور اس کی ھمتوں کو بڑھاتی ہے ،پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔

امام علیہ السلام فرماتے ہیں : ”قَدرُ الرجُلِ عَلَی قَدْرِ ھِمَّتِہ “ 

انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خوداسکی ھمتوں کے ذریعے کی جاسکتی ہے ۔ وہ جتنی زیادہ ھمت کرتا ہے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے،معمولی اور پست انسانوں کی ھمتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ہیں ،جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ہیں تو خوفزدہ ھو جاتے ہیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ہیں۔ مثلابعض افراد اتنے کم ھمت ہوتے ہیں کہ وہ روزہ رکھنے کا حوصلہ ہی نہیں کر پاتے،بعض ھمت تو کر لیتے ہیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ہیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے،اور اگر شام میں ارادہ کرتے ہیں تو سحر تک ٹوٹ جاتاھے۔ بعض افراد تھوڑی ھمت کرتے ہیں اور روزہ رکھ لیتے ہیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ہے اور انھیں یہ فکر لاحق ھوجاتی ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتھ آجائے جسکی وجہ سے یہ روزہ توڑاجاسکے ، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو ۔ بعض دیگر افراد ذرا اور ھمت کرتے ہوئےاپنا روزہ مکمل کر لیتے ہیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمت ھار جاتے ہیں ،بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکھ کر اپنی ھمت کو بڑھاتےہیں اور پورے مہینے کے روزہ رکھ لیتے ہیں ،لیکن گرمیوں میں ھمت جواب دے جاتی ہے ،ایسی ھمت رکھنے والے انسان کو ایک با ھمت انسان نھیں کہا جا سکتا۔کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیزتھے۔ ایک انسان مزید ھمت کرتا ہے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی وسردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ہے لیکن روزے کے آداب واسرار سے بے خبر ھوتاہے ،اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلّا الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔ کتنے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔ ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت توکرتا ہے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ہے لھذا اسے بھی ایک باھمت انسان نہیں کہا جا سکتا،اگرچہ اس کی ھمت دوسروں کی نسبت کافی زیادہ ہے لیکن اسکی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بہرہ ھے۔ اسکے نصیب میں فقط روزہ کاثواب آتا ھے،اسے جنت توضرور مل جاتی ہے لیکن خدا نھیں ملتا،اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نہیں ہوتا لھذاجس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء ومنکر کا مرتکب ھوتا ہے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ہے ،کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ہے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ہے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفۂ روزہ سے بے خبر ہے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نہیں کی ،حتی ممکن ہے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدرسے بے خبرتھا۔

رمضان کے باب میں  ایک با ھمت انسان وہ ہے جو روزے کو اسکے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں  ہے ، مقام انسان اتنا عظیم ہے کہ اس کی کوئی حد معین نھیں  کی گئی ھے، و ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمت کوبڑھا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اسکے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں  فقیر کو دے کر پانی پر اکتفاکر لے اور یہ عمل تین دنوں  تک جاری رہے ----”و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا“   یہاں  پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس عمل میں  ایک غیر معصوم کنیز(فضہ) بھی شریک ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بڑے مقام تک پہنچا سکتا ہے جھاں  وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔ یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بہت بڑا مقام ہے اور اس اطعام کی لذت ان روٹیوں  کے کھانے سے کہیں  زیادہ ہے ۔

روزه كا ظاهر وباطن : انسان جسم اور روح سے مرکب ھے،جسم روح کی فعالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ہے ، اور دوسری طرف روح کی فعالیت کا سلسلہ متوقف ھو جاتا ہے ۔انسان کے اعمال وعبادات بھی بالکل انسان کے مانند ہیں ،ان میں بھی ایک جنبۂ ظاھری وجسمانی ہے یعنی پیکر عمل، اور ایک جنبۂ باطنی و روحانی ہے یعنی فلسفہ واسرار عمل۔جسطرح انسان کی زندگی اسکی روح میں ہے اسی طرح عمل کی حیات بھی اسکے اسرار اور فلسفہ میں ہے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ہے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ہیں ،لیکن اکثر انسانوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ہیں ،وہ جسم کی زینت اور خدمت میں خود کو اتنا مشغول کر لیتے ہیں کہ انھیں روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی ۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ہے ،آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں لگا ھوا ہے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ہے ۔شھر، سڑکیں،گلیاں، مکان سب سجے ھوئے ہیں لیکن ان میں حرکت کرنے والے انسان مردہ ہیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ہے، جن کی ساری بھاگ دوڑ اس لیئے ہے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں اور خواھشیں پوری ھو جائیں لیکن اسکی کوئی فکر نہیں کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ہویانہ ہو۔تعجب اس بات پر ہے کہ پھر یہی انسان شکایت کرتا ہے کہ معاشرے میں فساد اور جرائم بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ اسے معلوم ہے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں تعفن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔

ايك سنجيده مسئله:

انسانوں  ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں  تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں  پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ہیں ۔تصنع، ریا کاری، فریب، تکبر اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں  بے روح عبادتوں  کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جن میں  اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ہیں ۔عبادتوں  کے ان نتائج کو دیکھ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ہے اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں  سے ہر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ جوان نسل مسجد میں  نھیں  آتی،جوان روزہ نھیں  رکھتے اور یہ درست بھی ہے لیکن وہ مسجد میں  اس لیئے نھیں آتے کیوں کہ انہیں  اسرار نماز نھیں  معلوم ، وہ روزہ اسلیئے نھیں  رکھتے کیوں کہ انھیں  فلسفۂ روزہ نھیں  بتایا گیا ہے 

راه حل ! آج جب کہ پوری بشریت شدت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ہے او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں کو قبول بھی نھیں کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام عبادتوں کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں ، ،لوگوں کو جتنے احکام بتائے جائیں اس سے کہیں زیادہ ان کے اسرار بتائے جائیں ،احکام کے فلسفہ بیان کیئے جائیں۔ ممکن ہے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھذا یہ بے روح نمازیں ، بے روح روزے ، بے روح حج، بےروح عبادتیں، بے روح عزاداری، حتی بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادتیں ، زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ہے جو پہلے بیان کیا گیاہے یعنی ان میں روح پیدا کی جائے ان کے اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے، سرے سے عبادتیں ھی نہ انجام دی جائیں ، سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ہیں لھذا ان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں ہے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں پھوڑ دی جائیں ۔



سوالات

1. روزہ کے فلسفۂ کے بارے میں جاننا کیوں ضروری ہے؟

2. روزے کے بارے میں انسان کی ہمت کے مختلف مراحل ذکر کریں؟

3. نماز اور روزے کے باوجود بعض مسلمان کیوں گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں؟

4. بے روح جسم کے کیا نقصانات ہیں؟

5. ويطعمون الطعام علي حبه مسكينا و يتيما و اسيرا " یہ آیت کس کی شان میں نازل ہوئی؟

6. لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف کس طرح راغب کیا جاسکتا ہے؟

اس مقالہ کے بارے میں اپنی آراء letstalkfor@hotmail.com پر بھیجیں