روزے کے بعض اسرار
وکیپیڈیا سے
روزہ (۴) پچھلے مقالوں کے لیئے روزے یا روزہ سرچ کریں
پچھلی گفتگو کے ضمن میں روزہ کے کچھ فلسفے و اسرار بیان ھوئے لیکن روزہ کے اسراراتنے زیادہ ہیں کہ انھیں اس مختصر تحریر میں جمع نہیں کیا جا سکتا،دوسرے یہ کہ تمام اسرار سے ھرشخص واقف بھی نھیں ھے۔ لھذا یھاں پر بعض اھم اسرار کو چند فصلوں میں بیان کیا جارھا ہے ۔
تطهير وتزكيه: تطھیر اگر چہ تمام عبادتوں کا فلسفہ ہے اور خدا انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں پاک و پاکیزہ دیکھنا چاھتا ہے ” وَ اللّہ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْن لیکن ماہ رمضان میں یہ معنی زیادہ وسیع اور ملموس شکل میں ظاھر ھوتا ہے ۔ اس با برکت مھینہ میں انسان ایک خاص تیاری کے ساتھ اپنی پاکیزگی کے لئے کوشش کرتا ہے ۔تطھیر روزہ کے ان اھم ترین اسرار میں سے ہے جسکے ذریعے نہ صرف روزہ میں بلکہ روزہ دار اور اس کے تمام اعمال میں وزن پیدا ھو جاتا ہے ۔ ماہ رمضان میں کرم الھی کے دسترخوان سے انسان کو بہت سے صفات وکمالات کسب کرنے ہیں ،لیکن کسی بھی صفت اور کمال کا حصول اس بات پر متوقف ھوتاہے کہ انسان نے اپنے اندر کتنی طھارت پیدا کی ہے کیونکہ کمالات کا مسکن پاک انسان اور اسکی پاکیزہ روح ہے ، آلودہ مقامات پر یا تو کمالات پیدا ھی نھیں ہوتے یا اگر پیدا ہوتے ہیں تو وہ بھی آلودہ ھو جاتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں انسان کو جو ایک سب سے بڑا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اسے اپنی تطھیر کرنی ہے کیونکہ تطھیر کے بغیر انسان کو نہ تو روزوں سے کچھ حاصل ھو گا ، سوائے بھوک اور پیاس کے ، نہ تلاوت قرآن سے اسکے اندر کوئی کمال پیدا ھو گا سوائے تھوڑے سے ثواب کے ، اور نہ ھی شب قدر سے کچھ کسب کر سکے گا سوائے بوریت اور تھکاوٹ کے ۔
مراحل تطهير و طريقه تطهير
تطھیر کوئی ذھنی اور مفھومی شیٔ نھیں ہے کہ انسان ذھن میں یہ تصور کر لے کہ میں پاک ھونا چاھتا ھوں اور وہ پاک ھو جائے بلکہ تطھیر کے لئے انسان کو چند مراحل سے گزرنا ھوتا ہے ۔
لباس و بدن كي تطهير:
تطھیر کا سب سے ابتدائی اور آسان مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاھر یعنی اپنے لباس اور بدن کو پاک وصاف کرے۔ اتفاقاً اسلام نے اسی پہلے مرحلے کے لئے بہت تاکید کی ہے حتی کہ نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے کیونکہ یہ بعد کے مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک آغاز ھے۔ انسان جس طرح لباس و بدن کے ظاھرکی تطھیر کو اھمیت دیتا ہے اسی طرح اسے باطنِ بدن کی بھی تطھیر کرنی چاھئے اور باطن بدن کی تطھیر کا بھترین وسیلہ روزہ ھے۔اسی لیے روایات میں روزہ کو زکات بدن سے تعبیر کیا گیا ھے۔
رسول اللہ(ص) نے فرمایاھے:”لِکُلِّ شَیٍٍٔ زَکَاۃٌ وَ زَکَاۃُ الْاَبْدَانِ الصِّیَامُ ہر شی کی ایک زکات ہے اور بدن کی زکات روزہ ھے۔
یعنی جس طرح زکات مال کو پاک کرتی ہے اسی طرح روزہ بدن کو پاک وسالم کرتا ہے ۔
حواس كي تطهير: دوسرے مرحلہ میں انسان کو اپنے حواس کی تطھیر کرنی ہے ، حواس سے مراد انسان کی سماعت، بصارت ، زبان اور دیگر حواس کی تطھیر ہے ۔ انسان اپنی آنکھ یعنی بصارت کی تطھیر کرے تاکہ” خائنۃ الاعین“ یعنی خیانتکار آنکھوں کا مصداق نہ بن جائے ، انسان اپنی سماعت کی تطھیر کرے تاکہ آلودہ سماعت سے خدا کا کلام نہ سنے ، ماہ رمضان میں خدا کی طرف انسانوں کو دعوت دی جاتی ہے لیکن گناھوں سے آلودہ سماعتیں اس دعوت کو نھیں سن سکتیں ۔انسان اپنی زبان اور قوت گویائی کی تطھیر کرے تاکہ غیبت ،بری باتوں، چاپلوسی ، اور غیر منطقی باتوں سے آلودہ زبان پر نام خدا نہ آئے کیوں کہ انسان کبھی اس بات پر راضی نھیں ھوتا کہ وہ ایک نھایت پاک و پاکیزہ چیز کو کسی گندے اور نجس ہاتھ میں پکڑا دے ۔
ماہ رمضان میں حواس کی تطھیر کے لئے کثرت سے روایات وارد ھوئی ہیں ۔حضرت زھرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں :”مَا یَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِیَامِہ اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَہ وَسَمْعَہ وَبَصَرَہ وَ جَوَارِحَہ روزہ دار اپنے اس روزے کا کیاکرے گاجس میں وہ اپنی زبان، سماعت، بصارت اوراعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔
خيال كي تطهير :
انسان کی ایک بہت بڑی اورباطنی آلودگی تخیل کی آلودگی ہے ۔ آلودہ تخیلات راہ علم و کمال میں ایک سنگین رکاوٹ ہوتے ہیں لھذا انسان کے لئے اھم ہے کہ وہ اپنے خیالات کو پاک کرے اور اگر انسان کو اپنے خیالات کی پاکیزگی کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھے کہ وہ حالت خواب میں کیا دیکھتا ہے کیوں کہ حالت خواب میں حواس کے سو جانے کے بعد تخیل زیادہ فعال ھو جاتا ہے اور حالت بیداری کے تخیلات کو مجسم شکل میں پیش کرتا ہے ۔ فكركي تطهير: یہ ایک اعلی مرحلہ ہے لھذا سابقہ مراحل سے سخت بھی ھے۔ انسان خدا کی مدد کے بغیر ان تمام مراحل تطھیر کو طے نھیں کر سکتا اور مرحلہ جتنا سخت ھو اسی مقدار میں خدا سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ شیطان مسلسل انسانی فکر میں وسواس ڈالتا رہتا ہے ”یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ اور انسان پر شیطانی وسواس کا سلسلہ جاری رہتا ہے ” اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ اِلی اَوْلْیَائِھِمْ تاکہ انسان کے اندر فکری انحراف پیدا کر دے اور فکری انحراف انسان کے دین، مذھب اور اعتقادات سب کو منحرف کر دیتا ہے یہاں تک اسی فکری انحراف نے لشکر امام علی علیہ السلام کے مقدس سپاھیوں کو خوارج کی شکل میں تبدیل کر کے خود امیر الموئمنین علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑا کیا۔ لھذا اس شیطانی شر سے بچنے کے لئے خدا نے جو طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے پروردگار کے ذریعے شیطانی وسواس سے پناہ طلب کرو: ”قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلہ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ “ یعنی خدا سے مدد طلب کرو ۔ جب انسان کی فکر پاک ھوجاتی ہے تو اسکے تعقل، ادراک اور طرز فکر میں بھی طھارت پیدا ھو جاتی ہے اور انسان افواھوں و تخیلات کے بجائے عقل و وحی کو اپنے فکر کا ذریعہ قرار دیتا ہے ۔
قلب كي تطهير: اکثر روایات میں قلب سے مراد دھڑکتا ھو ا دل نھیں بلکہ اس سے مرادحقیقت انسان اور روح انسان ہے ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کا دل عرش خدا اور حرم خدا بن جاتا ھے:” اَلْقَلْبُ عَرْشُ الرَّحْمن “ قلب انسان عرش خدا ھے۔” اَلْقَلْبُ حَرَمُ اللّہ وَ لَا تُسْکِنْ فِی حَرَمِ اللّہ غَیْرَہ “ تمھارا دل حرم خدا ہے ۔اس میں غیر خدا کوسکونت نہ دو۔“
تقوي: روزہ کے اھم ترین اسرار میں سے ایک تقوی ہے بلکہ اگر تقوی کو اپنے وسیع معنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام اسرار کی بازگشت تقوی کی طرف ھوتی ھے۔ شاید اسی لئے قرآن نے جب فلسفۂ روزہ بیان کیا تو اسی مطلوبہ صفت کو روزہ کا فلسفہ قرار دیا۔ ”یَا اَیُّھاالَّذِیْنَ امَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن دیگر امتوں کی طرح تم پر روزہ واجب قرار دیا گیاکہ شاید تم صاحب تقوی بن جاؤ۔لیکن تقوی قرآن اور معارف اسلامی کے ان مظلوم ترین الفاظ میں سے ہے جسکے معنی میں اس حد تک تحریف کی گئی ہے کہ اس لفظ کو تقوی کے بالکل بر عکس معنی میں استعمال کیا جانے لگاہے ۔ سستی ، جمود اور سادہ لوحی کو تقوی کا نام دیدیاگیاھے۔
سستي و جمود يا نشاط و ارتقاء ؟ مسلمان معاشروں میں مسیحی، یھودی اور ھندو تھذیب و افکار کا یہ اثر ھوا کہ دیگر اسلامی معارف کی طرح تقوی کوبھی بالکل بے روح اور بے کیف کر دیا گیا ھے۔ تقوی کوغاروں ،تہہ خانوں اور گوشئہ عافیت کی بے روح عبادتوں سے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا سے بے خبر، معاشرے سے دور، انسانوں سے روگرداں اور دوست و دشمن سے لا پرواہ ایک سادہ لوح انسان کو متقی کا نام دے دیا گیاہے جبکہ یہ تقوی اس تقوی کی بالکل ضد ہے جو رسول اللہ(ص)، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر آئمہ و انبیاء علیھم السلام کے پاس تھا۔ اگرتقوی کا بھترین نمونہ رسول اللہ(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ہے تو یہ دونوں شخصیتیں ھمیشہ میدان عمل میں نظر آئیں ، دشمنوں سے جنگ کرتے ھوئے نظر آئے، مسلمانوں کے حالات و مسائل کو حل کرتے ھوئے نظر آئے ،کبھی بازار میں ،کبھی مسجد میں ،کبھی گھر میں اور کبھی اصحاب کے درمیان۔اسلام میں تقوی سستی اور جمود کا نام نہیں ہے بلکہ تقوی یعنی ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء۔ قرآن نے سورۂ حمد کے بعد سورۂ بقرہ کی ابتدا ھی متقین کے صفات بیان کرنے سے کی ہے اورمتقین کے تمام صفات کو صیغۂ مضارع میں بیان کیا ہے (۲۹)یعنی عمل مسلسل اور مسلسل ترقی کرنے والا ایمان ۔ تقوی وقایۃ سے ہے اور وقایۃ یعنی سپر ۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ہے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ہے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لھذا اسے شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے الھی سپر کی ضرورت ہے اوروہ سپر تقوی ہے ۔ تقوی یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت جو شیطان کے ہر حملے کو پسپا کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پھونچا دے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا :”فَاِنَّ التَّقْوَی الْیَومَ حِرْزٌ وجُنَّةٌ وَ فی غِداًالطَّرِیْقُ اِلَی الْجَنَّۃِ “ تقوی آج پناہ و سپر ہے اور کل جنت کا راستہ ھے۔ تقوی کا ایک منفی معنی ہے اور ایک مثبت ۔منفی معنی وھی ہے جورھبانیت سے متاثر بعض صوفی سلسلوں کے ذریعے ھمارے معاشروں میں رائج ہواہے، یعنی چونکہ اپنی زندگی کو پاک اورسالم رکھنے کے لیے خود کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھنا ہے لھذا اپنے آپ کو ایسے مقام پر قرار دیاجائے جو شیطانی دسترس سے باھر ھو۔ لھذا وہ اپنی فردی، خاندانی اور سماجی ذمہ داریوں سے فرار کر کے کسی گوشۂ تنھائی میں پناہ لیتے ہیں اور گمان یہ کرتے ہیں کہ یہ جگہ شیطان کی دسترس سے محفوظ ہے جبکہ اس طرح شکست خوردہ اور زندگی سے فرار کرنے والا انسان زیادہ شیطان کی دسترس میں ہوتاھے۔ اسلام اور قرآن کی نظر میں مثبت تقوی وہ ہے جو انسان کو دشمن کے سامنے سے فرار کی دعوت نہ دے بلکہ اسے دشمن پرغلبہ پانے کے لئے آمادہ کرے۔ انسان کے اندر ایسی معنوی قوت اور بصیرت پیداکردے جو اسے معاشرے میں لوگوں کے درمیان رھتے ھوئے بھی محفوظ رکھے اور نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھے بلکہ دوسروں کی نجات کے لئے بھی کوشاں رہے ۔خدا کی دی ھوئی نعمتوں سے فرار کرنے کے بجائے انھیں اپنے اور معاشرے کے تکامل کا وسیلہ قرار دے۔ صاحب تقوی انسان خدا کی دی ھوئی نعمتوں کو استعمال کرتا ہے لیکن ان کا اسیر نھیں ھوتالھذا ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے لے کر اپنی عزیز ترین چیزوں تک کو قربان کرنے کے لئے تیار ھو جاتا ھے،بر خلاف اس شخص کے جودنیا کی نعمتوں کو ترک کرنے کے بعد بھی ان کا اسیر ھوتاہے اور ضرورت پڑنے پر اِک معمولی سی بھی قربانی دینے کی جرأت نھیں کر پاتا۔جواپنے گوشۂ تنھائی میں خدا کی یاد کے بجائے ھمیشہ ان چیزوں کی یاد میں رہتا ہے جو اسے نصیب نھیں ہوئیں یا جنھیں وہ ترک کر کے آیا ھے۔یہاں پر شیطان اسکی شکست خوردہ ذھنیت اور تنھائی سے فائدہ اٹھا کران کی اشیاء کی یادو محبت کو اور شدید کر دیتا ہے اور اس طرح اسے اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ھے۔
سوالات
1. کیا روزہ کے ذریعے انسانی روح کی پاکیزگی ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کس طرح؟
2. پاکیزگی کے مراحل بیان کریں
3. کیا لباس اور بدن کی پاکیزگی میں روح کی پاکیزگی کا کوئی کردار ہے؟
4. حواس کی تطھیر سے کیا مراد ہے؟
5. حواس اور خیال کی تطھیر میں کیا فرق ہے؟
6. قلب کی تطھیر کا کیا طریقہ ہے؟
7. کیا تقوی کا مطلب رھبانیت ہے؟ اگر نہیں تو صحیح مطلب بیان کریں
8. اسلام و قرآن کی نظر میں صحیح تقوی کیا ہے؟
اس مقالہ کے بارے میں اپنی رائے letstalkfor@hotmail.com پر بھیجیں