احمد فراز
وکیپیڈیا سے
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں | جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں |
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي | يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں |
غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو | نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں |
تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا | دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں |
آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر | کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں |
اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز | جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں ملیں |