مملوک

وکیپیڈیا سے

مملوک (عربی: مملوک برائے واحد، ممالیک برائے جمع) قرون وسطی میں مسلم خلفاء اور ایوبی سلاطین کے لئے خدمات انجام دینے والے مسلم سپاہی تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ زبردست عسکری قوت بن گئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت بھی حاصل کی مثلا مصر میں 1250ء سے 1517ء تک قائم مملوک سلطنت۔

مملوک شہسوار
Enlarge
مملوک شہسوار

فہرست

[ترمیم کریں] جائزہ

اولین مملوک سپاہیوں نے 9ویں صدی میں عباسی خلفاء کے لئے خدمات انجام دیں۔ عباسی انہیں خصوصا قفقاز اور بحیرہ اسود کے شمالی علاقوں سے بھرتی کرتے تھے۔ چرکاسیوں کے سوا اکثر قیدی غیر مسلم نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد خلیفہ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔ مملوک نظام کے تحت حکمرانوں کو ایسے جانباز سپاہی میسر آئے جنہیں کاروبار سلطنت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ مقامی جنگجو اکثر سلطان یا خلیفہ کے علاوہ مقامی قبائل کے شیوخ، خاندان یا اعلی شخصیات کے فرمانبردار ہوتے تھے۔ اگر کوئی سردار حکمران کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو ان سپاہیوں کی جانب سے بھی بغاوت کا خدشہ رہتا ہے۔


[ترمیم کریں] تنظیم

اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں شہسوار رسالوں میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان کی تربیت میں شہسوار دستوں کی حکمت عملی کی ترتیب، شہسواری، تیر اندازی اورابتدائی طبی امداد کی تربیت شامل تھی۔ مملوک چھاؤنیوں میں رہتے تھےجہاں وہ تیر اندازی اور دیگر صحت مند تفریح کے ذریعے اپنا دل بہلاتے تھے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد وہغلام نہیں رہتے تھے۔ سلطان مملوک فوج کو براہ راست اپنی کمان میں رکھتا تھا تاکہ وہ مقامی قبائل کی جانب سے بغاوت کی صورت میں اسے استعمال کرسکے۔

غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کے اعلی سلوک کی واضح مثال ان مملوک سپاہیوں کا اونچے عہدوں تک پہنچنا ہے جن میں سپہ سالاری تک شامل ہے۔


[ترمیم کریں] مملوک ہندوستان میں

1206ء میں ہندوستان میں مسلم افواج کے مملوک کمانڈر قطب الدین ایبک خود کو سلطان قرار دیتے ہوئے پہلے آزاد سلطان ہند بن گئے اور خاندان غلاماں کی بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1290ء تک قائم رہی۔


[ترمیم کریں] مملوک مصر میں

مصر میں مملوک سلطنت نے ایوبی بادشاہت سے جنم لیا جسے 1174ء میں عظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے تشکیل دیا ہے۔ 1169ء میں اپنے چچا شیرکوہ کی جانب سے دمشق کے زنگی سلطان نور الدین کے لئے مصر فتح کرنے کے بعد 1189ء میں بیت المقدس کی فتح کے بعد صلاح الدین نے مشرق وسطی میں اپنے خاندان کی گرفت مضبوط کردی۔ لیکن صلاح الدین کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں کے درمیان سلطنت کی تقسیم کا تنازعہ کھڑا ہوگیا اور وہ وسیع مملوک فوجوں کے ساتھ آمنے سامنے ہوگئے

1200ء میں صلاح الدین کے بھائی ملک العادل نے اپنے تمام بھائیوں اور بھتیجوں کو شکست دے کر سلطنت حاصل کرلی۔ ہر فتح کے ساتھ ملک العادل شکست خوردہ مملوکوں کو اپنی فوج میں شامل کرتا گیا اور ایوبی حکومت مملوکوں کی طاقت کے گھیرے میں آگئی جس نے جلد ہی سلطنت کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے شروع کردی۔


[ترمیم کریں] فرانسیسی حملہ اور مملوکوں کی فتح

جون 1249ء میں فرانس کے لوئس نہم کی زیرقیادت ساتویں صلیبی جنگ میں فرانسیسی لشکر مصر پر حملہ آور ہوا اور دمیتہ پر قبضہ کرلیا۔ سلطان الصالح ایوب کے انتقال پر سلطنت اس کے بیٹے توران شاہ اور اس بیوی شجرۃ الدر کو ملی جس نے مملوکوں کے تعاون سے فرانسیسیوں پر جوابی حملہ کیا۔ بحری مملوکوں کے کمانڈر رکن الدین بیبرس نے لوئس کی فوج کو شکست دی۔ مملوکوں نے مارچ 1250ء میں شاہ لوئس کو گرفتار کرکے 4 لاکھ لیور کا تاوان حاصل کیا۔ ایک مرد رہنما کے لئے بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے باعث شجرۃ الدر نے مملوک کمانڈر ایبک سے شادی کرلی۔ بعد ازاں ایبک قتل ہوا اور زمام اقتدار اس کے نائب قطوز نے حاصل کرلی۔ انہوں نے مملوکوں کی پہلی بحری سلطنت کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔

پہلی مملوک سلطنت کو بحری اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان مملوکوں کا تعلق بحری افواج سے تھا جن کا مرکز دریائے نیل کے جزیرے المنیال میں تھا۔ بحری فوج کی اکثریت قپچاق ترکوں اور چرکاسیوں پر مشتمل تھی۔


[ترمیم کریں] مملوک بمقابلہ منگول

ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے بغداد کو نیست و نابود کرنے کے بعد جب 1258ء میں دمشق پر قبضہ کیا تو دمشق سے فرار ہونے والے مملوکوں میں جنرل بیبرس بھی شامل تھا۔ وہ قاہرہ پہنچا اور جب ہلاکو خان نے قطوز سے ہتھیار ڈالنے کا مقابلہ کیا تو قطوز اس کے سفیروں کو قتل کرکے بیبرس کی مدد سے افواج روانہ کیں۔ مونگی خان کی ہلاکت کے باعث ہلاکو خان فلسطین کی جانب بڑھتی ہوئی منگول افواج کی قیادت اپنے نائب کیت بوقا کو دے کر وطن روانہ ہوگیا۔ بعد ازاں مملوک اور منگول افواج کے درمیان فلسطین میں عین جالوت کے مقابلہ پر تاریخی معرکہ ہوا جس میں مملوکوں نے تاریخ کی فیصلہ کن فتح حاصل کی اور کیت بوقا کو گرفتار کرکے قتل کرڈالا۔ اس فتح کی بدولت مصر اور فلسطین منگولوں کے بڑھتے ہوئے طوفان سے بچ گئے۔ جنگ عین جالوت کو تاریخ کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ شاندار کارنامہ انجام دینے کے بعد رکن الدین بیبرس قاہرہ واپس آیا اور قطوز کو قتل کرکے ملک الظاہر کے لقب سے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوا۔

مملوکوں نے 1260ء میں حمص میں دوسری مرتبہ منگولوں کو شکست دی اور مغرب کی طرف ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو ہمیشہ کے لئے روک دیا۔ اس دوران مملوکوں نے شام پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا اور جنگی قلعے قائم کرنے کے علاوہ ڈاک کا نظام قائم کیا۔ بیبرس کی افواج نے سرزمین فلسطین پر قائم آخری صلیبی ریاست انطاکیہ فتح کرکے فلسطین سے عیسائیوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔


[ترمیم کریں] برجی مملوک

1382ء میں اقتدار برجی مملوکوں نے حاصل کیا۔ برجی مملوک قاہرہ میں قلعے کے برجوں پر تعیناتی کے باعث برجی مملوک کہلاتے تھے جن کی اکثریت چرکاسیوں پر مبنی تھی۔


[ترمیم کریں] عثمانی

مملوک سلطنت 1517ء تک قائم رہی جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیم اول نے اسے فتح کرلیا۔ مملوک عثمانی سلطنت کے زیر انتظام بھی کام کرتے رہے تاہم انہیں پہلے جیسے اختیارات حاصل نہیں رہے۔


[ترمیم کریں] مملوکوں کی عثمانیوں سے آزادی

1768ء میں سلطان علی بے الباکر نے عثمانیوں سے آزادی کااعلان کیا لیکن مملوکوں نے اس تحریک کو سختی سے کچل دیا۔ اس موقع جارجیا سے نئے مملوک بھرتی کئے گئے۔

نپولین نے 1798ء کو مصر پر حملے میں مملوکوں کو شکست دی ۔ 1801ء میں فرانسیسی دستوں کی روانگی کے بعد مملوکوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔ 1803ء میں مملوک رہنماؤں ابراہیم بیگ اور عثمان بیگ نے روسی جنرل قونصل کو خط لکھا کہ وہ سلطان اور ان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں تاکہ وہ جنگ بندی کے بعد اپنے آبائی وطن جارجیا جاسکیں۔ استنبول میں روسی سفیر نے ثالثی سے انکار کردیا کیونکہ اسے جارجیا میں مملوکوں کی واپسی سے خطرہ تھا جہاں آزادی کی تحریک زوروں پرتھی اور مملوکوں کی واپسی سے اسے مزید توانائی ملتی۔

1805ء میں قاہرہ میں بغاوت پھوٹ گئی جو مملوکوں کے لئے اقتدار حاصل کرنے کا بہترین موقع تھا لیکن وہ اپنے داخلی مسائل کے باعث وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ 1806ء میں مملوکوں نے کئی مرتبہ ترک افواج کو شکست دیں اور جون کے مہینے میں دونوں افواج نے امن معاہدے پر دستخط کردیئے۔ جس کے تحت 26 مارچ 1806ء کو مصر کے گورنر مقرر کئے گئے محمد علی کو عہدے سے ہٹادیا گیا اور مصر کا ریاستی انتظام ایک مرتبہ پھر مملوکوں کے حوالے کردیا گیا۔ لیکن مملوکوں کی داخلی کشیدگی اور تنازعات نے انہیں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیا اور محمد علی اپنی طاقت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔


[ترمیم کریں] مصر میں مملوکوں کی طاقت کا خاتمہ

محمد علی جانتا تھا کہ اگر اسے مصر پر اپنی گرفت مضبوط رکھنی ہے تو اسے مملوکوں سے سودے بازی کرنا ہوگی۔ وہ اب بھی مصر کی زمینوں کے مالک ہیں اور ان کی زمینیں اب بھی دولت و طاقت کا ذریعہ ہیں۔

11 مارچ 1811ء کو محمد علی نے عرب میں وہابیوں کے خلاف اعلان جنگ کا جشن منانے کے لئے تمام مملوکوں کو محل میں مدعو کیا۔ قاہرہ میں منعقدہ اس تقریب میں تقریبا 600 مملوک (ایک ذریعے کے مطابق 700) شریک تھے۔ مکتمب پہاڑی سے نیچے آتی ہوئی ایک تنگ شاہراہ پر العذاب دروازوں کے قریب محمد علی کی افواج نے ان پر حملہ کرتے ہوئے تقریبا تمام مملوکوں کو قتل کردیا۔ روایت ہے کہ صرف ایک مملوک جس کا نام حسن تھا زندہ بچا۔

اگلے چند ہفتوں میں مصر بھر میں سینکڑوں مملوکوں کو قتل کیا گیا۔ صرف قاہرہ کے قلعے میں ایک ہزار مملوک قتل ہوئے۔ مصر بھر کی گلیوں میں تقریبا تین ہزار مملوک اور ان کے رشتہ دار قتل ہوئے۔

مصر میں مملوکوں کو زیر کرنے کی محمد علی کی ان کوششوں کے باوجود ان کا ایک گروہ جنوب کی طرف موجودہ سوڈان میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ 1811ء میں ان مملوکوں نے دنقولہ، سینار میں ریاست قائم کرلی۔


[ترمیم کریں] مملوک بغداد میں

عثمانی سلطنت کے دور حکومت میں 18ویں صدی میں بغداد کے مملوکوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور 1832ء میں عثمانیوں کی دوبارہ فتح تک خودمختار رہے۔


[ترمیم کریں] مملوک نپولین کی فوج میں

2مئی 1808ء: فرانسسکو ڈی گویا کا فن پارہ "چارج آف مملوک" 1814ء
Enlarge
2مئی 1808ء: فرانسسکو ڈی گویا کا فن پارہ "چارج آف مملوک" 1814ء

نپولین نے 19ویں صدی کے اوائل میں اپنی فوج میں مملوک کور کی تشکیل دی جو دنیا کی آخری مملوک فوج تھی۔ نپولین کا مشہور ذاتی محافظ روستان مصر سے تعلق رکھنے والا مملوک تھا۔