ثقب اسود

وکیپیڈیا سے

عمومی اضافیت
وابستہ موضوعات

ترمیم

ثقب اسود ، مادے کی ایک بے پنہاہ کثیف و مرتکز حالت ہے جسکی وجہ سے اسکی کشش ثقل اسـقدر بلند ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی شے اسکے افق وقیعہ (event horizon) سے فرار حاصل نہیں کرسکتی ، ماسواۓ اسکے کہ وہ کمیتی سرنگ گری (quantum tunnelling) کا رویہ اختیار کرے (اس رویہ کو hawkinig radiation بھی کہا جاتا ہے۔

ثقب اسود کا لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے ، 1- ثقب ، جسکے معنی چھید یا سوراخ کے ہیں اور 2- اسود ، جسکا مطلب ہے سیاہ یا کالا -- گویا عام الفاظ میں ثقب اسود کو ، سیاہ سوراخ کہا جاسکتا ہے۔ ثقب اسود کو انگریزی میں black hole کہتے ہیں۔

ثقب اسود میں موجود مادے کا دائرہء ثـقـل اسقدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس دائرے سے نکلنے کے لیۓ جو رفتار (سمتی رفتار - velocity) درکار ہوتی ہے وہ روشنی کی رفتار (speed of light) سے بھی زیادہ ہے اور چونکہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی شے نہیں لہذا اسکا مطب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے ، ثـقـب اسـود سے نکل نہیں سکتی فرار حاصل نہیں کرسکتی، یـہاں تک کے روشـنـی بھی اسکے افـق وقـیعـہ کے دائرہ اثر سے فـرار حاصل نہیں کرسکتی۔

گو ثقب اسود کی اصطلاح رائج الاستعمال تو ہے لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے واضع ہے کہ اصل میں یہ کوئی ثقب یا سوراخ نہیں بلکہ خلا (اسپیس) میں مادے کی کثافت کا ایک ایسا مقام ہے کہ جس سے کسی شے کو فرار حاصل نہیں۔

ثقب اسود کی موجودگی کی شہادت مختلف ھیئتی (austronomical) مشاہدات سے ملتی ہے، بطور خاص ایکس رے اشعاعی مشاہدات۔

 بلیک ہول
Enlarge
بلیک ہول

[ترمیم کریں] تاریخ

ایک ایسے جسم کا تصور کہ جس کی کشش سے روشنی سـمیت کائنات کی کوئی شے فرار نہ ملے، جغرافیہ دان John Michell نے 1783 میں رائل سوسائٹی کے لیۓ لکھے گۓ ایک مقالے میں کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ثقل کا نیوٹنی نظریہ اور سرعت فرار (escape velocity) تخیلات اپنی جگہ بناچکے تھے۔ مائکل نے حساب کتاب کے گھوڑے دوڑاۓ کے اگر سورج سے 500 گنا بڑی جسامت کا کوئی ایسا کائناتی جسم جسکی کثافت بھی اتنی ہی ہو جتنی کے سورج کی اور اسکی سطح پر سرعت فرار ، روشنی کی رفتار کے برابر ہو جاۓ تو وہ غیرمریی (invisible) یعنی موجود ہوتے ہوۓ بھی غائب ہوجاۓ گا۔

اسکے اپنے الفاظ کے مطابق ۔۔۔۔۔

اگر کسی کرہ کی کثافت اتنی ہی ہو جتنی کہ سورج کی اور اسکا نـصـف قـطـر سورج کے مقابلے میں 1 کی نسبت 500 تک بڑھ جاۓ تو ایک نامحدود بلندی سے اسکی جانب گرنے والا کوئی جسم ، اسکی سطح پر آکے روشنی سے زیادہ سرعت (سمتی رفتار) حاصل کرلے گا، اور اسی طرح اگر یہ فرض کیا جاۓ کے اسی قوت کے ساتھ روشنی کو بھی اسکے جـمـود (انرشیا) کے مقابلے پر کشش کیا جاۓ گا تو، دوسرے اجسام کے ساتھـ ساتھـ ، ایسے جسم سے نکلنے (پھوٹنے) والی تمام روشنی کو اسکی ثقل مخصوصہ کے تحت اسی کی جانب واپس پلٹا دیا جاۓ گا۔
  • گو کہ اسنے اسکو بعید از امکان کہا لیکن اسنے کائنات میں ایسے کسی جسم کی موجودگی کے امکان کو کہ جسکو دیکھا نا جاسکے یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔

[ترمیم کریں] آسان الفاظ میں خلاصہ

یعنی آسان الفاظ میں مختصرا یوں کہـ سکتے ہیں کہ یہ ایسے اجسام فلکی ہوتے ہیں جن کی قوت کشش اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ کچھ بھی ان کی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ حتکہ روشنی بھی اسکی حد کو پار نہیں کر سکتی۔ جس کی وجہ سے اسے دیکھنا ناممکن ہے۔( پہلے یہ مانا جاتا تھا کھ روشنی پر قوت کشش کا اثر نہیں ہوتا لیکن سائنس میں ترقی کی بدولت یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ روشنی پر بھی قوت کشش (gravitational force)اثر کرتی ہے۔

ثقب اسود کو دیکھنا ناممکن ہے لیکن سائنسی شواہد سے یہ تصور کیا گیا ہے کہ ایسے اجسام واقعی کائنات میں ہیں جن کی مقناطیسی قوت اتنی طاقت ور ہے کہ 299,792.458 کلو میٹر کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی اس کی کشش کے سامنے دم توڑ جاتی ہے۔

1784میں جان مائکل نے نیوٹن کے قوانین ثقل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر سورج کے قطر کو 500 گنا تک بڑھا دیا جائے تو اس کی کثافت اتنی ہو گی کہ روشنی اس کی دسترس کے پار نہ جاسکے گی۔

یوں کسی جسم کی کثافت بڑھتی ہے اس کی قوت کشش بھی بڑھتی جب ان کی کثافت اس حد تک بڑھ جاتی ہےکہ روشنی ان کی اس کشش کی حد کو پار نہیں کر سکتی تو ایسے اجسام کو دیکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے ایسے اجسام کو ثقب اسود کہا جاتا ہے۔