یوم ایران

وکیپیڈیا سے

[ترمیم کریں] پندرہ خرداد (پانچ جون) یوم ایران

پندرہ خرداد (پانچ جون) انقلاب اسلامی ایران کا یوم آغاز ہے ۔ بیالیس سال قبل اسی دن بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ظالم و ستمگر شاہی حکومت کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کیاتھا ، اس سے دوروں قبل تین جون انیس سو تریسٹھ کی تاریخ عاشورائے محرم کے مطابق تھی اور عصر عاشور کو امام خمینی (رح) نے قم کے مدرسۂ فیضیہ میں منعقد ہونے والی مجلس میں شاہ ایران اور اس کی امریکہ نواز پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی ۔ آپ (رح) نے سخت لہجے میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :

" اے شاہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں ، اپنی ان حرکتوں سے باز آجا ۔۔۔ یہ لوگ تجھے غافل کررہے ہیں ، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ وقت آجائے کہ تیرے چلے جانے پر لوگ شکر بجالائیں ۔ " امام خمینی (رح) نے اپنے خطاب میں اسرائیل کے ساتھ شاہی حکومت کے گہرے تعلقات سے پردہ اٹھاتے ہوئے شاہ ایران کو للکارتے ہوئے فرمایا :

" شاہ اور اسرائیل کے درمیان کیا تعلق ہے کہ ساواک ( خفیہ پولیس والے) کہتے ہیں کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت کہو ، کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟ "

شاہ ایران فرعونی تکبر میں محو تھے اسی لئے وہ امام خمینی (رح) کے تاریخی خطاب سے سیخ پا ہوگئے اور امام خمینی (رح) کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ شاہی کارندوں نے پانچ جون انیس سو تریسٹھ کی رات امام خمینی (رح) کو اس وقت گرفتار کرلیا جب آپ نماز تہجّد میں مصروف تھے ۔ امام خمینی (رح) کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ایران میں پھیل گئی، قم میں ہزاروں لوگ آپ (رح) کے شریعتکدے کی طرف بڑھنے لگے ، شہر کی فضا " یا موت یا خمینی " کے نعروں سے گونجنے لگی ۔ روضۂ حضرت معصومہ (ع) کے احاطے میں پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں ، دن بھر پولیس اور عوام کے درمیان مڈ بھیڑجاری رہی اور قم کی گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہنے لگیں ، اس دن ہزاروں افراد نے امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلام کی بالادستی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے تاریخ عالم کے ایک عظیم انقلاب کی داغ بیل ڈالی ، جو تقریبا" سولہ سال بعد گیارہ فروری انیس سو اناسی کو کامیابی سے ہمکنار ہوا اور جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریۂ ایران کا قیام عمل میں آیا ۔

عالم اسلام میں گذشتہ چند صدیوں کے دوران اسلامی بیداری کی متعدد تحریکیں چلیں ، جن میں سید جمال الدین اسدآبادی المعروف افغانی ، مصر کے شیخ محمد عبدہ ، شام کے عبدالرحمان کواکبی ، سوڈان کے المہدی ، داغستان کے شیخ شامل اور عراق کے آیت اللہ مجدد شیرازی کی تحاریک اور خود ایران کی آئینی تحریک اور تیل کو قومیانے کے لئے چلائی جانے والی آیت اللہ کاشانی کی تحریک قابل ذکر ہیں ، لیکن ان میں سے کسی بھی تحریک کو وہ مقبولیت اور کامیابی نصیب نہیں ہوئی جو امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک کو حاصل ہوئی ۔ اس تحریک نے دنیا کی ایک طویل شہنشاہیت کی بساط لپیٹ کررکھدی اور چودہ سو برس کے بعد اسلام کو اس کی عظمت رفتہ لوٹاکر اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت قائم کی ۔ امام خمینی (رح) کی تحریک ان کی رحلت کے پچیس برس گذرجانے کے باوجود روزبروز طاقتور ہوتی جارہی ہے ، درحقیقت یہ انقلاب ماضی میں عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں اٹھنے والی بیداری کی تحریکوں کا حسن ختام اور انقلاب کے بعد ابھرنے والی تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہواہے ، چنانچہ آج فلسطین ، عراق اور لبنان سمیت دنیا کے دیگر علاقوں میں چلنے والی اسلامی تحریکیں امام خمینی (رح) کی انقلابی تعلیمات کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتی ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں :

" آج دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں فکر امام خمینی (رح) کا کرشمہ ہیں " '

سابق سوویت یونین کے آخری سربراہ گورباچوف کے نام دعوت اسلام کے خط میں امام خمینی (رح) نے کمیونزم کے خاتمے کی پیش گوئی فرمائی تھی ، چنانچہ انیس سو نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرگیا اور اشتراکیت کی ستّر سالہ آہنی فصیل ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں روس کی زیر تسلط جمہوریائیں آزاد ہوئیں اور باکو ، بخارا ، سمرقند ، مرو اور وادی فرغانہ و غیرہ میں ایک بار پھر اذان کی روح پرور صدائیں گونجنے لگیں جو کبھی اسلام کے اہم مراکز شمار ہوتے تھے ۔ سوویت یونین کی سربراہی میں قائم مشرقی بلاک سے وابستہ ممالک یکے بعد دیگرے سوشلسٹ نظام کی پابندیوں سے آزاد ہونے لگے اور دیوار برلین گرگئی ، نیز دنیا کی دوسری سپر طاقت کے زوال کے ساتھ ساتھ مغرب کے سرمایہ داری بلاک کی بنیادیں بھی متزلزل ہونے لگی ہیں ، اس نکتے کی طرف بھی حضرت امام خمینی (رح) نے اشارہ فرمایاتھا ، آپ (رح) نے فرمایاتھا کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام ایک سبز باغ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

لہذا مشرقی بلاک کے تاریخ کے عجائب گھروں کی نذر ہونے کے بعد وہ دن بھی دور نہیں جب چشم فلک مغربی سامراج کےسورج کے غروب کا بھی مشاہدہ کرلے گی ۔

امام خمینی (رح) کے افکار و نظریات نے نہ صرف دنیا کی سیاسی فضا کو دگرگوں کیاہے ، بلکہ ان سے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد پوری دنیا کے انسانوں میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور دین و مذہب کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ گیاہے ، جب کہ بیسویں صدی میں الحادی افکار و نظریات کو فروغ دینے والے سوشلزم اور مادیت کے حامیوں کا کہناتھا کہ مذہب معاشرے کا افیون ہے ، لیکن امام خمینی (رح) نے مادیت اور صنعتی ترقی کے دور عروج میں ثابت کردیا کہ مذہب ہرطرح کی انسانی ضروریات کو پورا کرسکتاہے چاہے وہ روحانی پہلو کے حامل ہوں یا مادّی تقاضوں کے مطابق ہوں ۔

آپ (رح) نے اسلامی حکومت قائم کرکے اس مفروضے پر خط بطلان کھینچ دیا کہ اسلام لوگوں کے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

امام خمینی (رح) نے جہاں مسلمانوں کو غیرملکی سامراج کے تسلط سے آزادی اور اسلامی ممالک کے قدرتی ذخائر کو لوٹنے والے ہاتھوں کو کاٹ پھینکنے کی دعوت دی ، وہاں دنیا کی تمام غریب و محروم اقوام کو ظالم و جابر طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا ۔ 

آپ (رح) نے امریکہ کے رعب و دبدبے کے طلسم کو اس وقت توڑدیا جب دنیا والے امریکہ کو ناقابل شکست سمجھتے تھے ۔ انقلاب کے دوران ایرانی عوام نے امریکی پولیس میں شاہ ایران کی ہر قسم کے جدید ساز و سامان سے لیس فوج کو نہتے ہوکر شکست سے ہمکنار کیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد جب تہران میں امریکی سفارت کو جاسوسی کا اڈہ قرار دے کر انقلابی طلبہ نے اپنے قبضے میں لے لیا ، امریکہ نے یرغمالیوں کو چھڑانے کے لئے اپنے تئیں منظم منصوبے کے ساتھ ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاری کی جس میں اعلی انقلابی قائدین اور اہم مراکز کو ہدف قرار دینے کے ساتھ ، جاسوسی اڈے سے اپنے یرغمالیوں کو چھڑانا شامل تھا ، لیکن یہ آپریشن اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی اس وقت ناکام ہوا جب امریکی طیارے اور ہیلی کاپٹر مشرقی ایران میں واقع صحرائے طبس میں غیبی طاقت کے ہاتھوں تباہ ہوگئے ۔ صحرائے طبس کے ایک متروک ائیرپورٹ پر جونہی یہ طیارے اور ہیلی کاپٹر اترے ریت کا طوفان اٹھا اور یہ آپس میں ٹکراکر تباہ و برباد ہوگئے ۔ اس واقعے پر دنیا انگشت بدنداں رہ گئی لیکن خدا کی قدرت پر عقیدہ رکھنے والوں کو یقین ہوگیا کہ خدا نے اپنا وعدہ پورا کیاہے ۔ ارشاد خداوندی ہے :

ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم(اگر تم خدا کی نصرت کروگے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثابت و مستحکم کرے گا )

امام خمینی (رح) نے خدا پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے اپنی تاریخی تحریک کا آغاز کیا تھا اور خدا نے بھی ہر موڑ پر آپ (رح) کی مدد کی ۔ آپ (رح) نے جو بھی قدم اٹھایا وہ اسلام کی سربلندی، خدا کی حاکمیت ، احترام آدمیت اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے تھا ۔

اگرچہ آج امام خمینی (رح) ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آپ (رح) کے افکار و نظریات اور زریں تعلیمات ، حریت و آزادی کے متوالوں کے لئے درس انقلاب اور ستمدیدہ انسانوں کے لئے ظلم و جور کے بتوں کو پاش پاش کرنے کے لئے سرمشق حیات ہیں ۔ آج رحلت کے سولہ برسوں کے بعد بھی آپ (رح) کا مرقد مبارک ، مرجع خلائق ہے ، برطانیہ کے اخبار اینڈی پینڈنٹ کا نامہ نگار لکھتاہے :

" میں نے ایران میں امام خمینی (رح) کے مزار پر حاضری دی ، جو آج ایک عوامی زیارتگاہ بن گیاہے ، انسان جب امام خمینی (رح) کے مرقد پر حاضری دیتاہے تو احساس کرنے لگتاہے کہ وہ آج بھی زندہ ہیں اور ہر معاشرے میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی صرف دینی اور مذہبی پہلو کی حامل نہیں ہے بلکہ معاشرے میں سیاسی سطح پر بھی ان کی موجودگی کا احساس ہوتاہے "

اینڈی پینڈنٹ کا نامہ نگار آگے چل کر لکھتاہے : " اگر امریکہ ایران کو اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتاہے تو وہ امام خمینی (رح) کی استعمار مخالف تعلیمات کی وجہ سے ہے ، اس لئے کہ امام خمینی (رح) امریکہ کے ہر اقدام کا جواب دے سکتے تھے ، امام خمینی (رح) کے وصیت نامے پر جو زائرین کو تحفتا" دیا جاتاہے ان کا یہ جملہ جلی حروف میں لکھا ہواہے : " امریکہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔" اور لگتاہے یہ جملہ کل ہی لکھاگیاہے ۔

امام خمینی (رح) نے یہ بھی فرمایاتھا : " امریکہ (ہمارا) کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا "

یقینا" اگر امریکی سامراج سے مقابلہ کرنے والی قوتیں امام خمینی (رح) کے اس جملے کو حرز جان بناکر اس کے ظلم و ستم کے خلاف کمر ہمت باندھ لیں تو وہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا جس طرح جنوبی لبنان کے مجاہدین نے امام خمینی (رح) کی انقلابی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر بیس سال بعد امریکی ایجنٹ صیہونیوں کو اپنی سرزمین سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا ، اسی طرح آج عراق ، افغانستان ، فلسطین اور دیگر ممالک میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش برآب کرنے کا واحد ذریعہ امام خمینی (رح) کے انقلابی نظریات پر عملدرآمد ہی ہے ۔