امام زین العابدین (علیہ السلام)
وکیپیڈیا سے
[ترمیم کریں] سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین (علیہ السلام)
آپ کا نام علی، ابوالحسن کنیت اور زین العابدین لقب تھا، آپ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے فرزند اصغر اور ریاض نبوت کے گل تر تھے۔
آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس مغرور اور فخر کرنے والے پر تعجب ہوتا ہے جو کل حقیقت میں ایک نطفہ تھا اور کل مردار ہوجائے گا، آپ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ خوف سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یہ غلاموں کی عبادت ہے کچھ (جنت میں جانے کی) طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ تاجروں کی عبادت ہے کچھ خالص رضاءِ الہٰی میں عبادت کرتے ہیں یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔
آپ کا دل خشیت الہٰی سے لبریز رہتا تھا اور اکثر آپ خوف الہٰی سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، ابن عینیہ کا بیان ہے کہ حضرت امام علی بن حسین (علیہ السلام) حج کے لئے احرام باندھنے کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو خوف سے ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور ایسا لرزہ طاری ہوا کہ زبان سے لبیک تک نہ نکل سکا، لوگوں نے کہا آپ لبیک کیوں نہیں کہتے، فرمایا ڈر لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ میں لبیک کہوں اور ادھر کہیں سے جواب ملے لالبیک، تیری حاضری قبول نہیں، لوگوں نے کہا مگر لبیک کہنا تو ضروری ہے، لوگوں کے اصرار پر کہا مگر جیسے ہی زبان سے لبیک نکلا بیہوش ہوکر سواری سے گر پڑے اور حج کے دن تک یہی کیفیت طاری رہی۔
آپ ہر روز ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے اور وفات تک اس معمول میں فرق نہ آیا، اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین لقب سے ملقب ہوئے، قیام الیل میں سفر و حضر کی کسی بھی حالت میں ناغہ نہ ہوتا تھا۔ اخلاص فی العبادت اور خشیت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضوری کے وقت سارے بدن میں لرزہ طاری ہوجاتا تھا، حضرت عبداللہ بن سلیمان کا بیان ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سارے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا لوگوں نے پوچھا آپ کو یہ کیا ہوجاتا ہے، فرمایا لوگ کیا جانیں؟ میں کس کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور کس سے سرگوشی کرتا ہوں۔
محویت کا یہ عالم تھا کہ نماز کی حالت میں کچھ بھی ہوجائے آپ کو خبر نہ ہوتی تھی، ایک مرتبہ آپ سجدہ میں تھے کہ کہیں پاس ہی آگ لگ گئی لوگوں نے آپ کو بھی پکارا، اے ابن رسول! آگ لگ گئی اے ابن رسول! آگ لگ گئی لیکن آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھایا، تاآنکہ آگ بجھ گئی، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو آگ کی جانب اس قدر بے پرواہ کس چیز نے کردیا تھا فرمایا دوسری آگ نے جو آتش دوزخ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ، فیاضی اور دریا دلی آپ کا خاص وصف تھا، آپ خدا کی راہ میں بے دریغ دولت لٹاتے تھے، فقراء اور اہل حاجت کی دستگیری کے لئے ہمیشہ آپ کا دست کرم دراز رہتا تھا، مدینہ کے معلوم نہیں کتنے غریب گھرانے آپ کی ذات سے پرورش پاتے تھے اور کسی کو خبر نہ ہونے پائی، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ خفیہ طور پر مستقل سو گھرانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔
لوگوں سے چھپانے کے لئے بہ نفس نفیس خود راتوں کو جا کر ان کے گھروں پر صدقات پہنچا آتے تھے، مدینہ میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی معاش کا کوئی ظاہری وسیلہ نہ ہوتا تھا، آپ کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ آپ رات کی تاریکی میں خود جاکر ان کے گھروں پر دے آتے تھے۔ غلہ کے بڑے بڑے بورے اپنی پیٹھ پر لاد کر غریبوں کے گھر پہنچاتے تھے۔ وفات کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو جسم مبارک پر نیل کے داغ نظر آئے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹے کی بوریوں کے بوجھ کے داغ ہیں، جنہیں آپ عمر بھر راتوں کو لاد کر غرباء کے گھر پہنچاتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد اہل مدینہ کہتے تھے کہ خفیہ خیرات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دم سے تھی، سائلین کا بڑا احترام کرتے تھے، جب کوئی سائل آتا تو فرماتے میرے توشہ کو آخرت کی طرف لے جانے والے مرحبا پھر اس کا استقبال کرتے، سائل کو خود اٹھ کر دیتے تھے اور فرماتے تھے، صدقات سائل کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتے ہیں۔
عمر میں دو مرتبہ اپنا کل مال ومتاع آدھا آدھا خدا کی راہ میں دے دیا۔ پچاس پچاس دینار کی قیمت کا لباس صرف ایک موسم میں پہن کر فروخت کرتے اور اس کی قیمت خیرا ت کر دیتے تھے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کون شخص دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص کہ جب راضی ہو تو اس کی رضا اسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اسے حق سے نہ نکالے۔
امام زین العابدین فرماتے تھے کہ ایک رات حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام جوکی روٹی سے سیر ہوکر سوگئے اور معمولی شب قضاء ہوگئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے یحییٰ! اگر تو جنت الفردوس کی طرف ایک مرتبہ بھی جھانک لے تو تمہارا جسم اس کے شوق میں گھل جائے اور تو اتنا روئے کہ آنسو ختم ہوجانے کے بعد تیری آنکھوں سے پیپ بہنے لگے اور تو ا سکی طلب میں اتنی ریاضت و مشقت کرے کہ ٹاٹ کا لباس بھی چھوڑ کر لوہا پہن لے۔