کیا مردے سن سکتے ہیں؟ اسلامی نقطہ نظر سے (حصہ سوم)

وکیپیڈیا سے

فہرست

[ترمیم کریں] سلفی حضرات کا دعویٰ کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ رسولﷺ فاصلے سے بھی ہماری بات سن سکتے ہیں شرک ہے

نوٹ فرمائیے کہ --61.5.155.189 04:12, 23 جون 2006 (UTC) یہ دعویٰ قران یا سنت سے نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اِن کا گمان ہے۔ اِن حضرات کا کہنا ہے کہ اگر یہ یقین رکھا جائے کہ:

۱) رسول ﷺ اپنی وفات کے بعد بھی ہماری بات سکتے ہیں۔

۲) اور یہ کہ رسول ﷺ دور کے فاصلوں سے بھی ہماری پکار سنتے ہیں۔

تو یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے اور رسولﷺ کو ان صفات کا مالک جاننا ہے جو کہ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کی ذات ہی ہے جس کے قبضے میں قریب اور دور سے سننے اور دیکھنے کی تمام طاقت ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول ﷺ بھی قریب اور دور کے فاصلے سے ہمیں سن سکتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ رسول ﷺ بھی اللہ کے ساتھ "سمیع" ہیں، اور یہ شرک ہے۔

[ترمیم کریں] ہمارا تبصرہ

یہ پھر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری ہے جو وہ اس بات کا گمان کر رہے ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ "سمیع" کی صفت صرف اور صرف اللہ سے ہی مخصوص ہے، مگر ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس صفت سے کچھ حصہ عطا کر دے۔ اور اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کر کے نعوذ باللہ خدا اُس مخلوق کو اس صفت میں اپنا شریک بنا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات مطلق، بلا قید اور بلا مشروط ہیں، جبکہ مخلوقات کو ان صفات کا کچھ حصہ صرف اللہ ہی کا عطا کردہ ہے اور یہ بلا قید اور بلا مشروط نہیں ہے اور ہم ان کا موازنہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ آئیے قران سے اس معاملے میں مزید رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔

فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (القران ٢٧:٤٠) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے

لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول (ص) کے لیے بھی فرما رہا ہے:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم (القران ٦٩:٤٠) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔

جب ہم اللہ کے لیےکریم استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم نبیِ کریم کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔

اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز (القران ٢٢:٧٤) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔ مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول (ص) بھی قوت والا ہے

ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (القران ٨١:٢٠) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔

کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟ اہلحدیث حضرات کو دعوتِ فکر ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظرِ ثانی فرمائیں۔


[ترمیم کریں] رؤوف اور رحیم

یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (القران ۲:۱۴۳) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔

مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسولﷺ کے لیے فرما رہا ہے:

لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ (القران ۹:۱۲۸) لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔

اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:

عالم: یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل (ع) کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔ حلیم: یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم (ع) اور اسمعیل (ع) کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ شکور: یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح (ع) کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بر: یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ (ع) اور یحییٰ (ع) کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔


[ترمیم کریں] نتیجہ:

اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ سبحانھ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔

اہلحدیث حضرات ان قرانی آیات کو محض اپنے ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتے۔

جب ہم اللہ کو کریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے اور جب ہم رسولﷺ کو کریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں تاویل کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر اہلحدیث حضرات اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً یہ حضرات تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ص) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔


[ترمیم کریں] باب 4: اہلحدیث کے چند مزید اعتراضات

اہلحدیث حضرات کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس بات میں شک پیدا کریں کہ مردے سن سکتے ہیں۔ اس سیکشن میں ہم ان کے ایسے ہی اعتراضات دیکھیں گے جو کہ ان حضرات کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں تاکہ یہ اپنے عقائد کا دفاع کر سکیں۔ اعتراض ۱: رسولﷺ اس بات کا انکار کر رہے ہیں ان کو نہیں پتا کہ اُن کے مرنے کے بعد انکے اصحاب نے دین میں کیا کیا بدعات شامل کر دیں

اہلحدیث حضرات کا کہنا ہے کہ اگر واقعی رسول اللہ ﷺ کو ہمارے اعمال کا شعور ہوتا تو پھر انہیں اپنے صحابہ کے اُن اعمال اور بدعات کا کیوں نہیں پتا چلا جو کہ انہوں نے رسولﷺ کے مرنے کے بعد دین میں شامل کیے؟ اور ثبوت کے طور پر وہ رسولﷺ کی یہ حوضِ کوٹر والی حدیث پیش کرتے ہیں:

ابن عباس سے روایت ہے: روزِ محشر سب سے پہلے آدم ؑ کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ پھر میرے کچھ اصحاب کو دائیں ہاتھ پر لایا جائے گا جبکہ کچھ کو بائیں ہاتھ کی طرف۔ (ان بائیں ہاتھ والوں کو دیکھ کر) میں کہوں گا: “میرے اصحاب، میرے اصحاب" اس پر مجھے کہا جائے گا: “یہ تمہارے جانے کے بعد مرتد ہو گئے۔" اس پر میں وہی کہوں گا جو کہ اللہ کے نیک بندے عیسیٰ ابن مریم نے کہا تھا:”میں تو اُن پر اُس وقت تک گواہ تھا جبتک کہ میں ان کے درمیان رہا۔ اور جب تو نے مجھے دنیا سے اوپر اٹھا لیا، تو پھر تو ہی اُن پر نگران ہے اور ہر چیز کا گواہ ہے۔" صحیح بخاری، کتاب الانبیاء

یہ حدیث پیش کر کے اہلحدیث حضرات ثابت کرتے ہیں کہ رسولﷺ کو ان چیزوں کا کوئی علم نہیں تھا جو کہ اُن کی وفات کے بعد پیش آئیں۔


[ترمیم کریں] جواب:

قیامت کے دن واقعات مجازی طرز پر ہو رہے ہوں گے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ واضح کرنے دیں کہ قیامت کے دن ان مجازی سوالات سے کیا مراد ہے۔

قیامت کے دن ان مجازی سوالات سے مراد یہ ہے کہ سوال کرنے والا خود بہت اچھی طرح سے جواب جانتا ہے، مگر پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تاکہ اتمام حجت ہو سکے اور شہادت قائم کی جا سکے۔

یہ ایک طریقہ کار ہے جو کہ اللہ نے قیامت کے دن کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ قران میں اس کی کئ مثالیں موجود ہیں۔ چناچہ حوضِ کوثر کی حدیث پر بحث سے پہلے، ضروری ہے کہ ہم قران کی ان دی گئی مثالوں کو سمجھیں۔

اللہ "علیم" ہے یعنی ہر ہر چیز کا جاننے والا ہے چاہے وہ ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہو۔ مگر پھر بھی اللہ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مجازی سوالات پوچھے گا تاکہ اتمامِ حجت ہو سکے اور شہادت قائم کی جا سکے۔

القران، سورہ مائدہ 5:116 وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ اور جب اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کو مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو ....

بیشک اللہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ حضرت عیسٰیؑ نے لوگوں کو کبھی ہیں یہ کہا تھا کہ وہ اُن کی عبادت کریں۔ اور اللہ اس بات کو بہت اچھی طرح (بلکہ سب سے اچھی طرح) سے جانتا ہے، مگر پھر بھی عیسٰیؑ سے جانتے بوجتے یہ سوال کر رہا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے قیامت کے دن کا یہ طریقہ کار مقرر کر رکھا ہے کہ یہ مجازی سوالات کیے جائیں اور انکے جوابات دیے جائیں تاکہ شہادت قائم ہو سکے۔

اور اس مجازی سوال کے جواب میں حضرت عیسٰی فرما رہے ہیں:

.(القران 5:116) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو عیسٰی نے عرض کی کہ تیری ذات بے نیاز ہے میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے اور میں تیرے اسرار نہیں جانتا ہوں -تو ,تو غیب کا جاننے والا بھی ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ خود نہیں جانتا تھا کہ اس پر لازم ہے کہ ہر شے کا علم رکھے کیونکہ وہ "علیم" ہے؟ کیا واقعی اللہ کو کوئی حاجت تھی کہ عیسٰیؑ اس بات کو اُس پر واضح کریں؟ بیشک نہیں، اللہ کو ایسی کسی قسم کی حاجت نہیں ہے۔ مگر اللہ حضرت عیسٰیؑ کو ان مجازی سوالات کر کے یہ موقع دے رہا ہے کہ وہ اللہ کو اپنے اعمال پر گواہ بنا سکیں۔

حتیٰ کہ اہلحدیث کے مفسر حافظ ابن کثیر بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بات کہہ رہے ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:

وَقَوْله سُبْحَانك مَا " يَكُون لِي أَنْ أَقُول مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ " هَذَا تَوْفِيق لِلتَّأَدُّبِ فِي الْجَوَاب الْكَامِل كَمَا قَالَ اِبْن أَبِي حَاتِم : حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا اِبْن أَبِي عُمَر حَدَّثَنَا سُفْيَان عَنْ عَمْرو عَنْ طَاوُسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ : يُلَقَّى عِيسَى حُجَّته وَلَقَّاهُ اللَّه تَعَالَى فِي قَوْله " وَإِذْ قَالَ اللَّه يَا عِيسَى اِبْن مَرْيَم أَأَنْتَ قُلْت لِلنَّاسِ اِتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُون اللَّه " اور قران کی یہ آیت (جس میں عیسٰی علیہ السلام یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ! تیری ذات بے نیاز ہے اور میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔) اس آیت میں اللہ کی طرف سے عیسٰیؑ کو یہ ہدایات ہیں کہ وہ ان بے عیب اور کامل الفاظ میں جواب دیں (یعنی اللہ نے یہ جواب خود عیسٰیؑ کو پہلے سے سکھا دیا تھا)۔ ابن ابی حاتم نے یہ نقل کیا ہے کہ ابو ھریرہ کہتے ہیں کہ اللہ نے یہ الفاظ حضرت عیسیٰؑ کو پہلے سے ہی سکھا دیے تھے کہ اس سوال کے جواب میں انہیں کیا کہنا ہے۔

اگر آپ پر یہ بات واضح ہو گئی ہو تو آئیے اب حوضِ کوثر کی حدیث پر چلتے ہیں۔ آپ رسولﷺ کے الفاظ پر ایک مرتبہ پھر غور فرمائیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "میرے صحابہ میں سے چند کو حوضِ کوثر پر لایا جائے گا۔ اور جب میں انہیں پہچان لوں گا تو انہیں وہاں میرے پاس سے ہٹا دیا جائے گا۔ جس پر میں کہوں گا، "میرے اصحاب!"

چنانچہ اللہ نے اپنے رسولﷺ کو اس دنیا میں ہی اس واقعے کی تفصیل بیان کر دی ہے کہ تمہارے جانے کے بعد تمہارے صحابہ میں سے کچھ لوگ دین میں ایسی بدعتیں جاری کریں گے کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر فرشتے انہیں الٹے ہاتھ کی طرف لیجائیں گے اور تم انہیں پہچان لو گے۔ ۔ ۔ ۔ سوال یہ اٹھتا ہے:

۱) رسولﷺ نے یہ کیوں کہا کہ وہ انہیں پہچان بھی لیں گے اور پھر بھی یہ کیوں پکاریں گے کہ "میرے اصحاب"(تاکہ انہیں بچا سکیں) جبکہ آپ ﷺ کو اس دنیا میں ہی اس واقعے کی خبر دی جا چکی ہے۔ ۲) اور رسولﷺ کو کیوں وہ بات بتائی جائے گی جو کہ انہیں پہلے سے ہی معلوم ہے اور اس دنیا میں ہی بتائی جا چکی ہے (یعنی ان لوگوں نے دین میں بدعتیں جاری کی تھیں)؟

چنانچہ یہ یقین رکھیے کہ قیامت کے دن پہلے سے ہی بہت اچھی طرح سے یہ جانتے ہیں فرشتے ان چند اصحاب کو الٹے ہاتھ کی طرف لیجائیں گے، اور رسولﷺ اسکی وجہ بھی پہلے سے بہت اچھی طرح جانتے ہیں (یعنی انکا دین میں بدعات جاری کرنا) اور جب یہ واقعہ پیش آرہا ہو گا تو یہ سب کچھ مجازی معنوں میں ہو رہا ہو گا تاکہ شہادتیں قاٹم کی جا سکیں۔

مگر چونکہ اہلحدیث حضرات کا عقیدہ ہے کہ پورا قران ظاہر ہے، اسی لیے انہیں یہ بھی عقیدہ بنانا پڑا کہ قیامت کے دن یہ تمام سوالات اور جوابات بھی ظاہری معنوں میں ہو رہے ہوں گے۔ اس لیے یہ حضرات اس حدیث کے صحیح معنوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ اور اپنی اس ظاہری تفسیر کی بنیاد پر یہ رسولﷺ کی اُن تمام احادیث کو رد کر رہے ہیں جن میں رسولﷺ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ مردے سن سکتے ہیں۔

ان کے دلائل دینے کا انداز ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص اٹھے اور قران کی اُس آیت کا انکار کر دے جس میں اللہ حضرت عیسٰیؑ سے سوال کر رہا ہے۔ اور دلیل یہ دے کہ اللہ تو "علیم" ہے اور ہر بات کی خبر ہے اور قران کی یہ آیت اس کے "علیم" ہونے کی نفی کر رہی ہے لہذا یہ آیت (معاذ اللہ) جھوٹی ہے اور اس لیے رد ہے۔

اہلحدیث حضرات بھی رسولﷺ کی اُن تمام احادیث کو اسی قسم کے دلائل دے کر ماننے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے قیامت کے دن ان مجازی سوالات کے مقرر کردہ طریقہ کار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔


[ترمیم کریں] اعتراض 2: انبیاء قیامت کے دن اس بات کا انکار کریں گے کہ انہیں اُس جواب کا علم نہیں جو اُن کی قوم نے انہیں دیا تھا

اہلحدیث حضرات قران کی یہ آیت بھی نقل کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ انبیاء علیھم السلام کو کچھ علم نہیں تھا کہ ان کی قوم نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا:

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ جس دن خدا تمام مرسلین کو جمع کرکے سوال کرے گا کہ تمہیں قوم کی طرف سے تبلیغ کا کیا جواب ملا تو وہ کہیں گے کہ ہم کیا بتائیں تو خود ہی غیب کا جاننے والا ہے

اس آیت سے اہلحدیث حضرات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انبیاء علیھم السلام کو کچھ علم نہیں ہے کہ انکی قوم نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس آیت کا مردہ لوگوں کے سننے یا شعور سے کوئی تعلق نہیں ہے (جیسا کہ اہلحدیث حضرات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں)۔ یہ بات آپ واضح کر لیں کہ یہ آیت کسی ایسے جواب کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے جو کہ قوموں نے اپنے انبیاء کے مرنے کے بعد دیا ہو، بلکہ اللہ تو صرف اس جواب کے متعلق پوچھ رہا ہے جو کہ اُن کی قوموں نے اُن کی زندگیوں میں دیا تھا (یعنی مرنے کے بعد کسی جواب کا ذکر اِس آیت میں نہیں ہو رہا ہے)۔

مگر پھر کیا وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کوئی خبر نہیں ہے کہ انہیں اُن کی قوموں کیا اُس دعوت کا کیا جواب دیا؟

اس بات کا جواب جاننے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن ہولناک واقعات پیش آ رہے ہوں گے۔ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھتا ہے:

(اور انبیاء کیا یہ کہنا کہ "ہم نہیں جانتے") یہ بات قیامت کے دن کے خوف اور ہولناکی کے نتیجے میں کہی جائے گی۔ مجاہد، الحسن البصری، السودی، عبد الرزاق روایت کرتے ہیں کہ الثوری نے کہا کہ الاعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے اس آیت کے متعلق کہا: "جب اللہ انبیاء سے قیامت کے دن پوچھے گا کہ انہیں انکی قوموں نے دعوت کا کیا جواب دیا تو انبیاء اللہ کے خوف سے کہیں گے: "ہمیں کچھ علم نہیں۔

ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بھی یہی وجہ بیان کی ہے۔ علی ابن طلحہ کہتے ہیں کہ ابن عباس سے اس آیت کی یہ تفسیر پیش کی ہے: "جب انبیاء علیھم السلام قیامت کے دن اللہ سے جب یہ کہیں گے کہ "ہمارے پاس کوئی علم نہیں ہے اور بیشک تو ان غیب کی تمام چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔" تو یہ جواب اپنے رب کے حضور ادب کی وجہ سے ہو گا اور اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس تیرے کُل علم کے مقابلے میں کچھ علم نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا علم تو صرف لوگوں کے ظاہری برتاؤ تک محدود ہے، مگر ہم انکے دلوں کے علم نہیں رکھتے۔ تو بیشک تمام ظاہر اور غیب کے باتوں کا جاننے والا ہے اور ہمارا علم تیرے مقابلے میں نہ جاننے کے برابر ہے۔

چنانچہ یہ آیت انبیاء علیھم السلام کی وفات کے بعد کے واقعات نہیں بیان کر رہی ہے اور اس کی بنیاد پر اہلحدیث حضرات یہ آیت اس لیے نہیں استعمال کر سکتے کہ ثابت کریں کہ مردے نہیں سن سکتے۔


[ترمیم کریں] اعتراض ۳: حضرت عیسٰیؑ اپنی قیامت کے دن اپنی قوم کے اعمال پر شہادت نہیں دیں گے کیونکہ وہ اپنے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد اپنی قوم کے اعمال سے ناواقف ہیں

اہلحدیث حدیث حضرات اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے اس سورہ مائدہ کی آیت 116 تا 117 کا سہارا بھی لیتے ہیں

وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ اور جب اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کو مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو ....تو عیسٰی نے عرض کی کہ تیری ذات بے نیاز ہے میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے اور میں تیرے اسرار نہیں جانتا ہوں -تو ,تو غیب کا جاننے والا بھی ہے۔ میں نے ان سے صرف وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ میری اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ اور نگراں رہا -پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ان کا نگہبان ہے اور تو ہر شے کا گواہ اور نگراں ہے

چنانچہ اس آیت سے اہلحدیث حضرات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ اپنے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد اپنی قوم کے اعمال سے ناواقف ہیں اور اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ وہ ان پر صرف اُسوقت تک شاہد تھے جبتک وہ اپنی قوم کے درمیان رہے۔ اور اپنے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد وہ اُن کے اعمال سے ناواقف ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط ہے کہ رسولﷺ بھی ہمارے اعمال سے واقف ہیں اور ہماری پکار کو سن سکتے ہیں۔


[ترمیم کریں] جواب:

اہلحدیث حضرات قیامت کے دن کے واقعات کو یہ ثابت کرنے کے لیے حوالہ نہیں بنا سکتے ہیں کہ رسولﷺ ہمارے اعمال سے ناواقف ہیں، کیونکہ قیامت کے یہ واقعات مجازی معنوں میں ہو رہے ہیں تاکہ شہادتیں قائم ہو سکیں اور صرف ان اعمال کو حساب ہو رہا ہے جو کہ اس دنیا میں پیش آئیں۔

اگر اہلحدیث حضرات یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اپنے گمان پر اڑے رہتے ہیں تو وہ غور کریں کہ انکی اِس روش سے قران میں کتنے تضادات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور یہ اہلحدیث حضرات کا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ وہ قران و سنت کا صرف ایک حصہ لیتے ہیں اور اسکی تفسیر کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالتے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ قران و سنت کے دوسرے حصے کو بالکل فراموش اور نظر انداز کر جاتے ہیں۔

قبل اس کے ہم اس آیت کے صحیح مفہوم پر آگے بڑھیں، بہت ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ اہلحدیث حضرات قرانی اصطلاح "شہید (گواہ)" سے کیا مراد لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کی قرانی آیت ملاحظہ فرمائیں:

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاء شَهِيدًا (القران 4:41) اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہر امت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائیں گے اور پیغمبر آ پ کو ان سب کا گواہ بناکر بلائیں گے اور اسی طرح اس آیت کو دیکھئیے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوںکے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں

مسلمانوں کی عام رائے یہ ہےکہ رسولﷺ ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں اور اُن سے واقف ہیں اور اسی لیے انہیں ہمارے اعمال پر گواہ بنایا جا رہا ہے۔

مگر اہلحدیث حضرات کی رائے یہ ہے کہ رسولﷺ نے کبھی اپنی امت یا پچھلی امتوں کے اعمال نہیں دیکھے ہیں۔ اور اللہ جب انہیں "شاہد" کہہ رہا ہے تو یہ صرف قران کے علم کی بنیاد پر ہے (یعنی اللہ نے قران میں پچھلی امتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں اور رسولﷺ صرف ان قرانی کہانیوں کی بنیاد پر قیامت کے دن گواہی دیں گے)۔

سعودی حکومت کے اردو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ شائع کردہ قران میں اس آیت کے ذیل میں اہلحدیث عالم لکھتا ہے: "ہر نبی اللہ سے کہے گا کہ اُس نے اللہ کا پیغام اپنی امت تک پہنچا دیا تھا۔ اور اگر انہوں نے یہ پیغام قبول نہیں کیا تو یہ اُن انبیاء کی غلطی نہیں ہے۔ اس پر رسولﷺ آگے آئیں گے اور اس بات کی گواہی دیں گےکہ "یا اللہ! یہ جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ رسولﷺ اس بات کی گواھی قران کی بنیاد پر دیں گے، جو کہ ان پر نازل ہوا ہے اور پچھلی امتوں کی کہانیاں بیان کر رہا ہے۔" (نوٹ: اہلحدیث کا "شھید" کے متعلق یہ عقیدہ انکی ہر کتاب میں مل جائے گا اور اس بنیاد پر یہ حضرات رسولﷺ کے سننے اور ہمارے اعمال سے ناواقف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں)۔

اگر ہمارے پڑھنے والوں پر یہ واضح ہو گیا ہو کہ اہلحدیث حضرات کا "گواہی" کے متعلق کیا عقیدہ ہے، تو پھر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ قران میں فرما رہا ہے: وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (القران 4:159) اور کوئی اہل کتاب میں ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن عیسٰی علیہ السّلام اس کے گواہ ہوں گے۔

اس آیت میں اللہ خود اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ قیامت کے دن ہر ہر عیسائی اور یہودی کے اوپر گواہ ہوں گے۔ پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ پھر سے یاد کریں کہ اہلحدیث حضرات کا "گواھی" کے متعلق کیا عقیدہ تھا (یعنی رسول ﷺ پچھلی امتوں پر گواہ ہوں گے اُس یقینی علم کی وجہ سے جو قران کے ذریعے انہیں ملا ہے۔ اور اس قرانی علم کی بنیاد پر نہ صرف رسول ﷺ بلکہ پوری امتِ مسلمہ پچھلی امتوں پر گواہ ہو گی)۔

اگر اہلحدیث حضرات کے اس نظریہ کو صحیح مان لیا جائے تو بھی یہ بات یقینی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنی امت کے اعمال سے واقفیت رکھیں گے، کیونکہ دنیا کے آخر میں وہ دوبارہ یہاں نزول فرمائیں گے اور مہدیؑ کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ اور ان کے ہاتھ میں یہی قران آئے ہو گا، اور پھر انہیں بھی یقیناً قران کے علم کی بنیاد پر گواھی دینے کا حق حاصل ہو گا۔ چنانچہ یہ بات اہلحدیث حضرات کے لیے کسی شک و شبہ سے بالکل بالاتر ہونی چاہیئے کہ حضرت عیسیٰؑ کو اپنی قوم کے اعمال سے واقفیت ہو گی اور وہ قیامت کے دن اُن پر گواہ ہوں گے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم اہلحدیث حضرات کے ظاہر پرستی کے عقیدے پر چلیں، تو قران کی دو آیات میں تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ ۱) (القران 5:117) (عیسیٰ قیامت کے دن کہیں گے) ۔۔۔ میں ان پر گواہ تھا جبتک میں ان کے درمیان رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۲) مگر اگر ہم اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی روش پر چلیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ سورہ النساء کی 159 آیت میں اللہ حضرت عیسی کو جھٹلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ہر ہر عیسائی اور یہودی پر گواہ ہوں گے۔

اور اہلحدیث کے عقیدے کے مطابق بھی عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم پر گواہ ہونا چاہئے ہے کیونکہ ان کے پاس بھی قران ہو گا اور اُس کے علم کی بنیاد پر انہیں یہ گواھی دینی ہو گی۔ لیکن اگر اہلحدیث کے عقیدے کو مانیں تو ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام کو (معاذ اللہ) جھوٹا کہنا ہو گا کیونکہ وہ قران میں کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد نہیں جانتے کہ اُنکی قوم نے کیا کیا۔ اور یہ کہ وہ صرف ان پر گواہ تھے جب تک وہ اُن میں رہتے رہے۔

ہمیں امید ہے کہ ہمارے پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی پیروی کریں تو قران میں کیسے کیسے تضادات پیدا ہوں گے اور اسکا کیا نتیجہ نکلے گا۔

اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ اصل میں قیامت کے دن تمام واقعات مجازی معنوں میں ہو رہے ہوں گے۔ اور اس لیے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ وہ اپنی قوم پر صرف اُس وقت گواہ تھے جبتک وہ اُن میں رہتے رہے، تو اس کا مطلب یہ ہے انکا تبلیغ کا فرض صرف اُسوقت تک تھا جبتک وہ اپنی قوم میں رہے۔ اور اُن کے اٹھائے جانے کے بعد اُن پر سے یہ تبلیغ کا فرض ختم ہو گیا۔ اور قیامت کے دن جب ہمارا حساب کتاب ہو گا، تو صرف ان چیزوں کا ذکر ہو گا جو کہ عملی طور پر اِس زندگی میں ہی واقع ہوئیں (اور عالم ارواح کے واقعات کا حساب کتاب نہیں ہو رہا ہو گا)۔

اگر اہلحدیث حضرات اب بھی اس سے مختلف سوچتے ہیں تو یقیناً وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا بنا کر چھوڑیں گے اور قران میں تضادات بنا دیں گے۔

اسی طرح بہت سی اور احادیث ہیں جو کہ ظاہر کرتی ہیں کہ قیامت میں صرف اس دنیا کے واقعات کا حساب کتاب ہو گا اور یہ واقعات مجازی معنوں میں ہو رہے ہوں گے تاکہ شہادتیں قائم کی جا سکیں۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ تمام انبیاء علیھم السلام یقیناً جنت میں جائیں گے۔ مگر پھر بھی کئی احادیث ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ قیامت کا دن کتنا ہولناک ہو گا اور حتیٰ کہ یہ تمام انبیاء بھی اس کے خوف سے لرز رہے ہوں گے اور یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ اُن کا کیا حشر ہونے والا ہے، اور اُنکا بھی اِن مجازی معنوں میں حساب کتاب ہو گا۔

پچھلے ابواب میں ہم نے کئی قرانی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث پیش کی تھیں جو کہ بلا شک و شبہ کے یہ ثابت کرتی ہیں کہ مردے سن سکتے ہیں۔ مگر اہلحدیث حضرات اِن تمام قرانی آیات اور احادیث کو صرف اور صرف اپنے گمان کی بنیاد پر رد کر رہے ہیں اور اِن کے پاس ایک بھی ایسی واضح حدیث نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ مردے نہیں سن سکتے۔


[ترمیم کریں] اعتراض 4: حضرت عُزَیر کا واقعہ جنہیں 100 سال کے بعد زندہ کیا گیا تو انہیں اس عرصے کے درمیان کا کچھ علم نہیں تھا

مردوں کی سماعت کی نفی کرنے کے لیے اہلحدیث حضرات کی طرف سے چوتھا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت عُزَیر کو 100 سال تک کے لیے موت دے دی اور جب انہیں دوبارہ زندہ کیا تو انہیں اِس عرصے کے درمیان کے واقعات کا کچھ علم نہیں تھا۔ اس سلسلے میں وہ ذیل کی آیت پیش کرتے ہیں:

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِي هََذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (القران 2:259) "یا اس بندے کی مثال جس کا گذر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے عرش و فرش گرچکے تھے تو اس بندہ نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سوسال کے لئے موت دے دی اورپھرزندہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا کچھ کم . فرمایا نہیں . سو سال. ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو (کہ سڑ گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں. پھر ان ہڈیوںکو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں. پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شے پرقادر ہے۔

جواب:

حضرت عُزَیر کا یہ واقعہ ایک استثنائی واقعہ ہے اور اس کو بنیاد بنا کر رسول ﷺ کی وہ تمام احادیث کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ جس میں آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ اللہ نے حضرت عُزَیر کو جو موت دی، وہ ایک عام موت سے بالکل مختلف چیز تھی اور ان کے لیے اس میں ایک سبق تھا۔ کیا اہلحدیث حضرات غور نہیں فرماتے کہ:

1) عام موت کی صورت میں انسان کا جسم گل سڑ جاتا ہے، مگر حضرت عُزَیر کا جسم گلنے سڑنے سے پاک رہا؟ 2) اور یہ اللہ کا معجزہ تھا کہ آپ کے کھانے پینے کی چیزیں تک نہیں گلی سڑیں۔ 3) اور عام میت کو جب قبرستان کی طرف لیجایا جاتا ہے تو اگر وہ نیک شخص ہوتا ہے تو اِس کی روح کہتی ہے کہ جلدی کرو۔ اور اگر میت نیک آدمی کی نہیں ہوتی تو روح چیختی ہے کہ مجھے کہاں لیجا رہے ہو۔ مگر حضرت عُزیر کے سلسلے میں اِن کی روح ایسے کسی سلسلے سے نہیں گذری۔ 4) اور عام آدمی کو دفنانے کے بعد جب لوگ قبرستان سے جاتے ہیں تو روح انکے قدموں کی چاپ سنتی ہے، مگر حضرت عُزَیر کی روح نے ایسی کوئی چاپ نہیں سنی۔ 5) اور عام آدمی کو جب دفنا دیا جاتا ہے تو فرشتے آ کر اسے بٹھا دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔ مگر حضرت عُزَیر کے پاس کوئی فرشتے نہیں آئے۔

مختصر یہ کہ یہ ایک استثنائی واقعہ تھا اور اسی وجہ سے 100 سال کے واقعات تو کُجا، حضرت عُزَیر کو تو فرشتوں تک کے آنے کی خبر نہیں تھی۔ تو اگر اِس واقعہ کی بنیاد پر سماعتِ موتیٰ کا انکار ممکن ہے تو پھر تو اِس بنیاد پر اس بات کا بھی انکار کر دینا چاہئے کہ قبر میں فرشتے آتے ہیں۔

اللہ محمد ﷺ پر اور آلِ محمد پر اور آپ سب پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے۔ امین۔ والسلام