شیعہ
وکیپیڈیا سے
حضرت فاطمہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور جناب خدیجة الکبری (سلام اللہ علیھا ) کی اکلوتی بیٹی حضرت علی کی رفیقہٴ حیات اور امام حسن و امام حسین ، جنابِ زینب و اُمِ کلثوم کی مادرِ گرامی اور نو اماموں کی جدہٴ ماجدہ تھیں۔ آپ کی مشہور کنیت اُمُّ الآئمہ، امام الحسنین اور ام السبطین تھی۔ مشہور القاب زہرا و سیّدة النساء تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی کنیت "اُمِّ ابیھا" بھی تھی جو میرے نزدیک یہ "اُمِ اِبنیہا" ہے یعنی حسن و حسین کی ماں۔
'آپ کی ولادت' آپ کا نورِ وجود نورِ رسالت کے ساتھ خلقت کائنات سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ البتہ آپ کے ظاہری نمود و شہود کے لیے علماء نے لکھا ہے کہ آپ معراج رسالت مآب کے بعد ۵ ئبعثت میں بتاریخ ۲۰ جمادی الثانی یوم جمعہ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا سالِ ولادت عام الفیل کے لحاظ سے ۴۶ ء اور عیسوی نقطہٴ نگاہ سے ۶۱۴ - ۶۱۵ ء تھا۔ آپ کی ولادت کے وقت جنت سے حوروں اور آسیہ بنت مزاحم۔ مریم بنت عمران۔ صفورا بنت شعیب، کلثوم ہمشیرہ موسی کاآنا کتابوں سے ثابت ہے۔ جنابِ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کا بیان ہے کہ چونکہ میں نے اپنے قبیلہ کے منشاء کے برخلاف سرورِ کائنات سے شادی کر لی تھی۔ اس لیے میری قوم نے میرا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ میں نے ولادت کے وقت حسبِ دستور اطلاع دی لیکن کوئی نہ آیا۔ اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوئی۔ حوروں اور پاک بیبیوں نے قابلہ اور دایہ کا کام کیا۔ بچی پیدا ہوئی۔ رحمة اللعالمین کا گھر بقعہ نور بن گیا (۱)
آپ کا اکلوتی بیٹی ہونا مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ جنابِ خدیجہ کے ساتھ جب آنحضرت کی شادی ہوئی تو آپ باکرہ تھیں۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ قاسم عبد اللہ یعنی طیب و طاہر اور فاطمہ زہرا بطنِ خدیجہ سے رسولِ اسلام کی اولادیں تھیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ زینب، رقیہ امِ کلثوم آنحضرت کی لڑکیاں تھیں، یا نہیں یہ مسلم ہے کہ یہ لڑکیاں ظہورِ اسلام سے قبل کافروں عتبہ، عتیبہ، پسران ابو لہب اور ابو العاص ابنِ ربیع کے ساتھ بیاہی تھیں۔ جیسا کہ مواہب لدنیہ ج۱ صفحہ ۱۹۷ طبع مصر و مروج الذہب مسعودی ج۲ صفحہ ۲۹۸ طبع مصر سے واضح ہے۔ یہ مانا نہیں جا سکتا کہ رسول اسلام اپنی لڑکیوں کو کافروں کے ساتھ بیاہ دیتے۔ لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ عورتیں ہالہ بنت خویلہ ہمشیرہ جناب خدیجہ کی بیٹیاں تھیں۔ ان کے باپ کا نام ابو لہند تھا جیسا کہ علامہ معتمد بدخشانی نے مرجاء الانس میں لکھا ہے۔" یہ واقعہ ہے کہ یہ لڑکیاں زمانہ کفر میں ہالہ اور ابوالہند میں باہمی چپقش کی وجہ سے جنابِ خدیجہ کے زیرِ کفالت اور تحت تربیت رہیں اور ہالہ کے مرنے کے بعد مطلقاً انھیں کے ساتھ ہو گئیں اور خدیجہ کی بیٹیاں کہلائیں۔ اس کے بعد بذریعہ جنابِ خدیجہ آنحضرت سے منسلک ہو کر اسی طرح رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی بیٹیاں کہلائیں۔ جس طرح جنابِ زید محاورہ عرب کے مطابق رسول کے بیٹے کہلاتے تھے۔ میرے نزدیک ان عورتوں کے شوہر مطابق دستورِ عرب و امادِ رسول کہے جانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ کسی طرح نہیں مانا جا سکتا کہ یہ رسول کی صلبی بیٹیاں تھیں۔ کیونکہ حضور سرورِ عالم کا نکاح جب بی بی خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) سے ہوا تھا، تو آپ کے اعلانِ نبوت سے پہلے ان لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے ہو چکا تھا اور حضور سرورِ کائنات کا نکاح ۲۵سال کے سن میں خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) سے ہوا۔ اور تیس سال کے سن تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور چالیس سال کے سن میں آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔ اور ان لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے چالیس سال کی عمر سے پہلے ہو چکا تھا، اور اس دس سال کے عرصہ میں آپ کے فرزند کا بھی پیدا ہونا اور ان تین لڑکیوں کا پیدا ہونا تحریر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ مدارج النبوةمیں بتفصیل موجود ہے۔ بھلا غور تو کیجئے کہ دس سال کی عمر میں چار پانچ اولادیں بھی پیدا ہو گئیں اور اتنی عمر بھی ہو گئی کہ نکاح مشرکوں سے ہو گیا۔ کیا یہ عقل و فہم میں آنے والی بات ہے کہ چار سال کی لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے ہو گیا اور حضرت عثمان سے بھی بڑی ایک لڑکی کا نکاح حالتِ شرک ہی میں ہو گیا۔ جیسا کہ مدارج النبوة میں مذکور ہے۔ اس حقیقت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکیاں حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی نہ تھیں۔ بلکہ ہالہ کی تھیں اور اس عمر میں تھیں کہ ان کا نکاح مشرکوں سے ہو گیا تھا۔(۲)
بچپن اور تربیت جناب سیدہ میں بچپن کے وہ آثار ہی نہ تھے جو عام لڑکیوں میں ہوا کرتے ہیں۔ امِ سلمہ سے کہا گیا کہ فاطمہ کو اصولِ تہذیب سکھائیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں مجسّمہٴ عصمت و طہارت کو اخلاق و عادات کی کیا تعلیم دے سکتی ہوں۔ میں تو خود اس کم سن بچی سے تعلیمِ اصول حاصل کیا کرتی ہوں۔ کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا بچپن ، عبادت اور خدمتِ والدین میں گزرا۔ ایک مرتبہ آنحضرت صحن کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ ابو جہل جو حضرت عمر کا ماموں تھا۔ (۳)اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے حالتِ سجدہ میں اونٹ کی اوجھڑی گوبر بھری پشتِ حضور پر رکھ دی۔ فاطمہ کو خبر ملی تو آپ دوڑی ہوئی آئیں اور پشتِ رسالت سے اوجھڑی ہٹا دی اور پشتِ مبارک کو پانی سے دھو دیا۔ رسولِ کریم نے فرمایا۔ بیٹی! ایک دن یہ دشمن بھی مغلوب ہوں گے اور خدا میرے دین کو انتہائی بلندی عطا کرے گا۔ تاریخ میں ہے کہ حضرت خدیجہ کسی کی شادی میں جانے کے لیے تیار ہوئیں اور کپڑے پہننے لگیں، تو پتہ چلا کہ جنابِ سیّدہ کے لیے کپڑے نہیں ہیں۔ ماں اسی تردّد میں تھی کہ بیٹی کو احساس ہو گیا۔
عرض کیا مادرِ گرامی! میں پُرانے ہی کپڑوں میں چلوں گی۔ کیونکہ بابا جان فرماتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کا بہترین زیورِ حیات تقویٰ ہے اور بہترین آرائش شرم و حیا ہے۔
فاطمہ زہرا کا سارا بچپن فقر و فاقہ اور تنگیٴ و مصائب میں گزرا۔ آپ کو جن حضرات سے تربیت ملی وہ یہ ہیں۔ (۱) خدیجة الکبریٰ (سلام اللہ علیھا ) (۲) سرورِ کائنات (۳) فاطمہ بنتِ اسد (سلام اللہ علیھا ) (۴) اُم الفضل زوجہ عباس (۵) اسماء بنت عمیس زوجہ جعفر طیار -(۶) اُم ہانی ہمشیرہ جنابِ ابو طالب- (۷) ام ایمن (۸) صفیہ بنت جناب حمزہ -
مدارج النبوة میں ہے کہ حضرت رسول اکرم جنابِ سیدہ کو جبکہ وہ کمسن تھیں۔ اکثر اپنی آغوش میں بٹھا لیا کرتے تھے اور ان کے لبوں کو بوسہ دیتے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا کہ جنابِ فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کے بوسے دیتے ہیں اور اپنی زبان ان کے منہ میں دیتے ہیں۔ حضور نے فرمایا، تمہیں معلوم نہیں، جب میں معراج پر گیا تھا جبریل نے مجھے ایک سیب جنت دیا تھا۔ میں نے وہ کھایا تھا اور اسی سے فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کا نقطہٴ وجود قائم ہوا تھا۔ اے عائشہ جب میں جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کی خوشبو سونگھتا ہوں اور دہنِ فاطمہ سے میوہٴ جنت کا لطف اٹھاتا ہوں۔ (۴)
آپ کی عصمت
عصمت کوئی ایسی صفت نہیں جو کسی عمل پر موقوف ہو، یہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے اور بد و فطرت میں عطا ہوا کرتا ہے۔ ملائکہ انبیاء اور اوصیاء خاص کے علاوہ یہ پاکیزہ صفت جن اہم شخصیتوں کو عطا ہوئی، ان میں حضرت فاطمہ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ جس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور بارہ امام دنیا میں ہدایت خلق کے لیے بھیجے گئے اور سب معصوم تھے۔ اسی طرح صنفِ نازک کے لیے حضرت مریم (سلام اللہ علیھا )اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) تشریف لائیں اور یہ دونوں بیبیاں معصوم تھیں اور دونوں کی عصمت پر قرآن گواہ ہے۔
آپ کی والدہ کی وفات
آپ کی والدہ جنابِ خدیجة الکبریٰ(سلام اللہ علیھا ) تھیں۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کو پانچ سال ماں کی آغوش میں تربیت نصیب رہی۔ جناب خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کی علالت سے جنابِ سیدہ کو بے حد رنج ہوا۔ آپ ان کی تیمار داری میں شب و روز لگی رہتی تھیں اور ان کے چہرہ پر نظر جمائے انھیں کو دیکھا کرتی تھیں۔ ماں کا چہرہ بحال دیکھا تو خوش ہو گئیں۔ ماں کی شکل پژ مردہ دیکھی رنجیدہ ہو گئیں۔ یہی طرزِ عمل رہا کہ ایک دن خدیجہ(سلام اللہ علیھا ) نے فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کو اپنے سینے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ بیٹی نے پوچھا اماں جان آج آپ کے رونے کا انداز کچھ نرالا ہے فرمایا۔ بیٹی! میں تجھ سے رخصت ہو رہی ہوں۔ افسوس تجھے دلہن بنے نہ دیکھ سکی۔ ماں بیٹی میں المناک گفتگو جاری تھی کہ ماتھے پر موت کا پسینہ آگیا اور خدیجہ ۱۰ رمضان ۱۰ ء بعثت کو انتقال فرما گئیں۔ موت کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال کی تھی۔ آپ کو مقبرہ حجون میں دفن کیا گیا۔ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کے انتقال سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا )کو انتہائی رنج پہنچا اور آپ سے زیادہ سرورِ کائنات کو صدمہ ہوا۔ اسی وجہ سے آپ نے اس سال کو "عام الحزن" کہا ہے۔ صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۴۱۹ میں ہے کہ آنحضرت جنابِ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کی یاد میں گوسفند ذبح کرکے ان کی سہیلیوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اس بڈھی عورت کو جس کے منہ میں دانت بھی نہ تھے۔ کب تک یاد کرتے رہو گے۔ یہ سن کر آنحضرت غضب ناک ہو گئے۔ اور فرمایا کہ اس سے بہتر مجھے کوئی عورت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت ایمان لائیں جب کہ سب کافر تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت میرے لیے مال صرف کیا۔ جب لوگ مجھے محروم رکھنا چاہتے تھے۔ حیات القلوب میں ہے کہ حضرت ابو طالب اور ان کے تین دن بعد حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کا انتقال ہوا تھا۔
ہجرتِ فاطمہ
۱۰ ء بعثت شب جمعہ یکم ربیع الاول کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے ہجرت فرمائی اور ۱۶ ربیع الاوّل یوم جمعہ کو داخل مدینہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد آپ نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو ۵ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا کہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) ، فاطمہ بنتِ اسد ، ام المومنین سودہ اور ام ایمن وغیرہ کو لے آئیں۔ چنانچہ یہ بیبیاں چند دنوں کے بعد مدینہ پہنچ گئیں۔ آپ کے عقد میں اس وقت صرف دو بیبیاں تھیں۔ ایک سودہ اور دوسری عائشہ۔ ۲ ئہجری میں آپ نے امِ سلمہ سے عقد کیا۔ اُمِ سلمہ نے نگہداشتِ فاطمہ زہرا کا بیڑا اتھایا اور اس انداز سے خدمت گزاری کی کہ فاطمہ زہرا سے ماں کو بھلا دیا۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا )کی شادی
پیغمبرِ اسلام نے علی کی ولادت کے وقت علی کو زبان دے دی تھی اور بعد میں فرمایا تھا کہ میری بیٹی کا کفو خانہ زادِ خدا کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ (۵) حالات کا تقاضا اور نسلی خاندانی شرافت کا مقتضیٰ یہ تھا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کی خوستگاری کے سلسلہ میں علی کے سوا کسی کا تذکرہ تک نہ آتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا اس اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کے سنِ بلوغ تک پہنچتے ہی لوگوں کے پیغامات آنے لگے۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر نے پھر حضرت عمر نے خواستگاری کی اور ان کے بعد عبد الرحمٰن نے پیغام بھیجا۔ حضرات شیخین کے جواب میں رسولِ اکرم غضبناک ہوئے اور ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔(۶)اور عبد الرحمٰن سے فرمایا کہ فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کی شادی حکمِ خدا سے ہو گی، تو تم نے جو مہر کی زیادتی کا حوالہ دیا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ تمہاری درخواست قبول نہیں کی جا سکتی(۷)۔ اس کے بعد حضرت علی نے درخواست کی تو آپ نے فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کی مرضی دریافت فرمائی۔ وہ چُپ ہو رہیں، یہ ایک طرح کا اظہارِ رضا مندی تھا۔ (۸) بعض علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے خود علی سے فرمایا کہ اے علی مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی لختِ جگر کا عقد تم سے کروں، کیا تمہیں منظور ہے؟ عرض کی "جی ہاں"! اس کے بعد شادی ہو گئی(۹) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ پیغام محمود نامی ایک فرشتہ لے کر آیا تھا(۱۰)بعض علماء نے جبریل کا حوالہ دیا ہے۔
غرض کہ حضرت علی نے ۵۰۰ درہم میں اپنی زرہ عثمان غنی کے ہاتھوں فروخت کی اور اسی کو مہر قرار دے کر بتاریخ یکم ذی الحجہ ۲ ء ہجری حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا )کے ساتھ عقد کیا۔ مذکورہ رقم آج کل کے لحاظ سے ایک سو سات روپے ہوتی ہے جو ہمارے نزدیک شرعی مہر ہے۔
جنابِ سیّدہ کا جہیز
نکاح کے تھوڑے عرصہ بعد ۲۴ ذی الحجہ کو حضرت سیدہ (سلام اللہ علیھا ) کی رخصتی ہوئی سرورِ کائنات نے اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی کو جو جہیز دیا اس کی تفصیل یہ ہے:
(۱) ایک قمیض قیمتی سات درہم (۲) ایک مقنع (۳) ایک سیاہ کمبل (۴) ایک بستر کھجور کے پتوں کا بنایا ہوا (۵) دو موٹے ٹاٹ (۶) چمڑے کے چار تکیے (۷) آٹا پیسنے کی چکی (۸) کپڑا دھونے کی لگن۔ (۹) ایک مشک (۱۰) لکڑی کا بادیہ (۱۱) کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ایک برتن (۱۲)دو مٹی کے آبخورے (۱۳) ایک مٹی کی صراحی (۱۴) چمڑے کا فرش (۱۵) ایک سفید چادر (۱۶) ایک لوٹا۔
یہ ظاہر ہے کہ رسولِ کریم اعلیٰ درجے کا جہیز دے سکتے تھے۔ مگر اپنی امت کے غربا کے خیال سے اسی پر اکتفا فرمایا۔
جلوسِ رخصتی
کھانے پینے کے بعد جلوس روانہ ہوا۔ اشہب نامی ناقہ پر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) سوار تھیں۔ سلمان ساربان تھے۔ ازواجِ رسول ناقہ کے آگے آگے تھیں۔ بنی ہاشم ننگی تلواریں لیے جلوس میں تھے۔ مسجد کا طواف کرایا اور علی کے گھر میں فاطمہ کو اتار دیا۔ اس کے بعد آنحضرت نے فاطمہ سے ایک برتن میں پانی منگوایا کچھ دعائیں دم کیں اور اسے فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) اور علی کے سر سینے اور بازو پر چھڑکا اور بارگاہِ احدیت میں عرض کی بار اِلٰہا انھیں اور ان کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ (۱۱) اس کے بعد فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) سے کہا۔ دیکھو علی سے بے جا سوال نہ کرنا۔ یہ دنیا میں سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ لیکن دولتمند نہیں ہے اور علی سے کہا کہ یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرنا کہ اسے ملال ہو۔ تذکرة الخواص سبط ابن جوزی کے صفحہ ۳۶۵ میں ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا )کے ساتھ جس وقت علی کی شادی ہوئی ان کے گھر میں ایک چمڑا تھا۔ رات کو بچھاتے تھے اور دن میں اس پر اونٹ کو چارہ دیا جاتا تھا۔
حضرت فاطمہ کا نظامِ عمل
شوہر کے گھر جانے کے بعد آپ نے جس نظامِ زندگی کا نمونہ پیش کیا ہے وہ طبقہٴ نسواں کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں، جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ کاتنا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ سب کام اور اکیلی سیّدہ(سلام اللہ علیھا ) عالم۔ لیکن نہ کبھی تیوری پر بل آئے اور نہ کبھی شوہر سے اپنے لیے مددگار یا خادمہ کی فرمائش کی۔ پھر جب ۷ ء ہجری میں پیغمبر خدا نے ایک خادمہ عطا کی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں، تو رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق سیّدہ عالم فضہ کے ساتھ ایک کنیز کا سا نہیں، بلکہ ایک عزیز رفیق کار جیسا برتاؤ کرتی تھیں اور ایک دن گھر کا کام خود کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتی تھیں اور اس طرح خادمہ کو خادمہ نہ ہونے کا تصور پیدا نہ ہونے دیتی تھیں۔ دراصل یہ مساواتِ محمدی کی اعلیٰ مثال ہے۔ (۱۲)
فاطمہ زھرا اور پردہ
آپ نے عورتوں کی معراج پردہ داری کو بتایا ہے اور خود بھی ہمیشہ اس پر عامل رہی ہیں اور اتنی سختی کے ساتھ کہ مسجد رسول سے بالکل متصل قیام رکھنے اور مسجد کے اندر گھر کا دروازہ ہونے کے باوجود کبھی اپنے والد بزرگوار کے پیچھے نمازجماعت میں شرکت یا آپ کے موعظ کے سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائیں۔ ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش فرما دیا۔ کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے؟ یہ بات سیّدہ تک پہنچی ۔ آپ نے جواب دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر یہ بات ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پرے، اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو آپ نے فرمایا، کیوں نہ ہو، فاطمہ میرا ہی ایک جزو ہے۔
جنابِ سیّدہ کا جہاد
اسلام میں عورت کا جہاد مرد سے مختلف ہے اس لیے سیّدہ نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا۔ مگر رسول کبھی زخمی ہو کر گھر واپس تشریف لاتے تھے تو پیغمبر کے زخموں کو دھلانے والی، اور علی جب خون میں ڈوبی ہوئی تلوار لے کر آتے تھے تو ان کی تلوار کو صاف کرنے والی فاطمہ زہرا ہی ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ نصرت اسلام کے لیے میدان میں گئیں۔ مگر اس پر امن معاملہ میں جو نصاریٰ کے مقابلہ میں ہوا تھا۔ اور جس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ اس جہاد کا نام مباہلہ ہے۔ اور اس میں پردہ داری کے تمام امکانی تقاضوں کی پابندی کے ساتھ سیّدہ عالم باپ بیٹوں اور شوہر کے درمیان مرکزی حیثیت رکھتی تھی(۱۳)
حضرت فاطمہ اور امور خانہ داری
عورتوں کا جو ہرذاتی شوہروں کی خدمت اور امور خانہ داری میں کمال حاصل کرنا ہے۔ فاطمہ زہرا نے علی کی ایسی خدمت کی کہ مشکل سے اس کی مثال ملے گی۔ ہر مصیبت اور تکلیف میں فرمانبرداری پر نظر رکھی۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ کہ جس طرح جنابِ خدیجہ نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت کی، اسی طرح بنتِ رسول نے اسلام اور علی کی خدمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح رسول کریم نے خدیجہ کی موجودگی میں دوسرا عقد نہ کیا۔(۱۴) حضرت علی نے بھی فاطمہ کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا۔(۱۴) ۲#و مناقب صفحہ ۸۔ حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ فاطمہ آپ کی نظر میں کیسی تھیں۔ فرمایا۔ خدا کی قسم وہ جنت کا پھول تھیں۔ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی میرا دماغ ان کی خوشبو سے معطر ہے۔
امور خانہ داری میں جناب سیّدہ آپ ہی اپنی نظیر تھیں۔ ۷ ئہجری تک آپ کے پاس کوئی کنیز نہ تھی۔ کنیز نہ ہونے کی صورت میں گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں۔ جھاڑو دیتیں۔ پانی بھرتیں، چکی پیستیں، آٹا چھانتیں، آٹا گوندھتیں، تنور روشن کرکے روٹی پکاتی تھیں۔ حضرت علی سویرے اٹھ کر مسجد چلے جاتے تھے اور وہاں سے مزدوری کی فکر میں نکل جاتے تھے۔ فضہ کے آجانے کے بعد کام تقسیم کر لیا گیا تھا۔ بلکہ باری باندھ لی تھی۔ ایک دفعہ سرورِ عالم خانہ سیّدہ میں تشریف لائے۔ دیکھا کہ سیّدہ گود میں بچے لیے چکی پیس رہی ہیں۔ فرمایا۔ بیٹی ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ عرض کی بابا جان! آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے(۱۵)
حضرت فاطمہ اور باہم گزاری زوجہ و خاوند
حضرت امام موسیٰ کاظم - ارشاد فرماتے ہیں کہ "جہاد المرة حسن التبعل " عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک ہے(۱۶) ایک حدیث میں ہے کہ "لا تودی المرٴة حق اللہ حتّٰی تودی حق زوجہا" عورت اگر خاوند کا حق ادا نہیں کرتی تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتی۔" (۱۷)
رسولِ کریم فرماتے ہیں کہ اگر خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ (۱۸)
حضرت فاطمہ حقوق خاوند سے جس درجہ واقف تھیں کوئی بھی واقف نہ تھا۔ انھوں نے ہر موقع پر اپنے شوہر حضرت علی کا لحاظ و خیال رکھا ہے۔ انھوں نے کبھی ان سے کوئی ایسا سوال نہیں کیا جس کے پورا کرنے سے حضرت علی عاجز رہے ہوں۔
کتاب "ریاحین الشریعة" میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ بیمار ہوئیں تو حضرت علی نے ان سے فرمایا کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ، حضرت سیّدہ (سلام اللہ علیھا ) نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت علی نے اصرار کیا تو عرض کی، میرے پدرِ بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ ممکن ہے آپ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔
یہ تاریخ کا مسلمہ امر ہے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ میں کبھی کسی بات پر شکر رنجی نہیں ہوئی۔ اور دونوں نے باہم دگر خوشگوار زندگی گزاری ہے۔
ساس بہو کے تعلقات
فاطمہ زہرا کی شادی کے وقت جنابِ فاطمہ بنتِ اسد زندہ تھیں۔ ساس بہو کے تعلقات اکثر و بیشتر ناخوشگوار ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن فاطمہ نے ایسا دستور اور رویہ اختیار کیا کہ کبھی بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا نہ ہونے پائی۔ فاطمہ بنتِ اسد کے سپردا عزاء و اقرباء کی ملاقات، شادی اور غمی میں شرکت وغیرہ قرار دیا۔ اور اپنے ذمہ امور خانہ داری۔ مثلاً چکی پیسنا، روٹی پکانا وغیرہ رکھ لیا۔ تاریخ میں ان دونوں کی باہمی کشیدگی کا سراغ نہیں ملتا۔
آپ کی اولاد
آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ۱۵ رمضان ۳ ہجری کو امام حسن اور ۳ شعبان ۴ ہجری کو امام حسین اور ۵ جمادی الاول ۶ ہجری حضرت زینب اور ۹ ہجری میں جناب امِ کلثوم اور ۱۱ ہجری میں استقاط محسن ہوا۔ علماء نے لکھا ہے کہ زینب کا عقد عبداللہ بن جعفر سے ہوا تھا۔ ابنِ ماجہ ابوداؤد۔ ابنِ حجر اور اسعاف الراغبین برحاشیہ نور الابصار صفحہ ۸۰ طبع مصر۔ بروایت سبط ابنِ جوزی حضرت زینب کے بطن سے عون و عبد اللہ پیدا ہوئے اور امِ کلثوم لاولد فوت ہوئیں(۱۹)
آپ کی عبادت
آپ بے شمار نمازیں شب و روز پڑھا کرتی تھیں۔ آپ نے اپنے پدرِ بزرگوار کے ہمراہ ۱۰ ہجری میں آخری حج فرمایا تھا۔
فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا ) پیغمبر اسلام کی نظر میں
فاطمہ زہرا کی فضیلت اور ان کے مدارج کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیتیں اور بے شمار حدیثیں موجود ہیں۔ میں اس وقت چند احادیث اور پیغمبر اسلام کے بعض طرزِ عمل پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپ کا ارشاد ہے کہ فاطمہ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ تمام جہان کی عورتوں کی سردار ہیں۔ آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی۔ خدا نے آپ کی بدولت آپ کے ماننے والوں کو جہنم سے چھڑا دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مردوں میں بہت لوگ کامل گزرے ہیں لیکن عورتوں میں صرف چار عورتیں کامل گزری ہیں۔ (۱) مریم (۲) آسیہ (۳) خدیجہ (۴) فاطمہ اور ان سب میں سب سے بڑا درجہ کمال فاطمہ کو حاصل ہے۔
علماء کا بیان ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم آپ سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور کمال عزت بھی کرتے تھے۔ محبت کے مظاہروں میں سے ایک یہ تھا کہ جب کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ کو دیکھنے تشریف لے جاتے تھے اور عزت و احترام کا مظاہرہ یہ تھا کہ کانت فاطمة اذا دخلت علی رسول اللہ قام الیھا فقبلھا و اجلسھا فی مجلسہجب حضرت فاطمہ آتی تھیں تو کھڑے ہو جاتے تھے، اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔(۲۰)مختلف کتب صحاح میں موجود ہے کہ آنحضرت نے فرمایا۔ فاطمہ میرا جز ہے جو اسے اذیت پہنچائے گا وہ مجھے اذیت پہنچائے گا۔ مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ نزول آیہ تطہیر کے بعد سرو�