منصوبہ بندکاری - ہندوستان
وکیپیڈیا سے
فہرست |
[ترمیم کریں] تاریخ
آج کے۔ ایل۔ راو ¿ ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔ آج سے چار دہائی قبل کانگریس کے اس وقت کے وزیر آبپاشی کے۔ ایل ۔راو ¿ نے گنگا کو کاویری سے جوڑنے کے لئے 2,620کیلو میٹرلمبی نہر بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ا ن کے بعد ممبئی کے انجینئر دین شاءدستور نے بھی سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کے لئے 1974میں ندیوں کو جوڑنے کا منصوبہ حکومت کو سونپا تھا۔ لیکن اس وقت حکومت نے ان منصوبوں کو بے کار اور انتہائی خرچیلا بتا کر رد دیا تھا۔اس سے قبل انگریزی دور حکومت میں بھی ندیوں کو جوڑنے کے منصوبے کو رو بہ عمل لانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن منصوبے کے انتہائی خرچیلا ہونے کی وجہ سے اسے رد کر دینا پڑا تھا ۔
لیکن اب حکومت اس منصوبے کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتی ہے ۔ سابقہ حکومت نے اس کام کے لئے سریش پربھو کی سربراہی میں ایک کمیٹی کی تشکیل دی تھی او ر اسے جلد سے جلداس پروجیکٹ کے متعلق رپورٹ داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ دراصل اس منصوبہ کو پھر سے شروع کرنے کا سہرا سپریم کورٹ کے سر جاتاہے ۔ سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کے ایک رٹ کی سنوائی کرتے ہوئے اس کام کو سن 2016تک نمٹانے کا حکم صادر کیا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے صدر جمہوریہ جناب اے۔ پی۔ جے۔ عبدالکلام بھی اس منصوبہ کے زبردست حامی ہیں۔وہ اپنے خطبہ ¿ صدارت میں کئی مرتبہ اس منصوبے کا ذکر کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر سے اس بات کو دوہرایا ہے کہ ملک میں سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کے لئے ندیوں کا آپس میں جوڑنا انتہائی ضروری ہے ۔ اس سے ملک کے ہر حصے میں پینے کا صاف پانی آسانی سے مہیا ہو پائے گااور ساتھ ہی ندیوں کے جوڑنے سے توانائی ، زراعت ، اور آمد و رفت کے میدان میں بھی ترقی پیدا ہوگی اور دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع حاصل ہونگے ۔
2016 تک اس منصوبے کو پورا کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے اور اس پر ایک اندازہ کے مطابق 5لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔اس منصوبہ کے تحت ملک کی26ندیوں کو نہروں کے ذریعہ 30مختلف مقامات پر جوڑا جائے گا۔
اس منصوبہ کو حکومت مرحلہ وار کر رہی ہے اور پہلے مرحلہ میں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی ریاستی حکومتیں اس کام کا آغاز’ کین ‘اور ’بیتوا‘ ندیوں کے جوڑنے سے کر رہی ہیں۔ اس کے تحت کین اور بیتوا کو 230کلو میٹر لمبے نہر کے ذریعہ جوڑا جائے گا۔ ساتھ ہی مدھیہ پردیش کے’ پنّاٹائیگر ریزرو‘ کے بیچ میں ایک ڈیم اور ایک چھوٹا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ لگایا جائے گا۔ اس منصوبے پر قریب ساڑھے گیارہ ہزار کروڑ روپے صرف ہوں گے۔
[ترمیم کریں] منصوبہ ۔ مثبت پہلو
حکومت کا یہ دعوی ہے کہ ندیوں کے آپس میں جوڑنے کے اس منصوبہ کے پورا ہونے کے بعد ملک میں خوشحالی کی بہار آ جائے گی ۔ ہر سال قریب 3.7کروڑ لوگوں کو روز گار کے مواقع ملیں گے ۔ سوکھے سے متاثرہ علاقو میں پینے اور سینچائی کے لئے پانی کی سہولت ہو جائے گی ۔ بہار اور آسام میں سیلاب کی تباہ کاری پر لگام کسا جا سکے گا ۔ سوکھے سے متاثرہ ندیوں میں بھی پانی بہا کرے گا ۔ ہر سال 1275.74ارب کیوبک میٹر فضول بہہ جانے والے پانی کا استعمال ممکن ہو پائے گا اور جمنا جیسی ندیوں کو نئی زندگی حاصل ہو جائے گی ۔
اگر یہ منصوبہ پورا ہوتا ہے تو ملک کی تیس ریاستوں کے 90اضلاع کو ہر مرتبہ سوکھے کی مار نہیں جھیلنی پڑے گی اور 83اضلاع کی لگ بھگ چار کروڑ ہیکٹیر زمین کو بھی سیلاب کی زد سے بچایا جا سکے گا ۔ حکومت کا یہ بھی دعوی ہے کہ اس منصوبہ کے ذریعہ 34ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی ۔ اس منصوبہ پر حکومت کے تمام دعوو ¿ں اور وعدوںکے باوجود اس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں کم نہیں ہیں ۔ بلکہ جتنا اس منصوبہ کے حامی ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس منصوبہ کی مخالفت کر رہے ہیں ۔
ندیوں کے جوڑنے کے اس منصوبے کے کئی پہلو ہیں۔ معاشی ، سیاسی ،سماجی، ماحولیاتی ، اور یہاں تک کہ کئی معاملوں میں اس کا تعلق بین الاقوامی بھی ہے ۔سریش پربھو کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کا خاص کام یہ ہے کہ وہ مختلف ریاستوں کے بیچ ہونے والے تنازعوں کو حل کریںاور اس پر رائے عامہ ہموار کریں ۔ منصوبے سے جڑی کچھ اور سب کمیٹیاں منصوبے کے مختلف پہلوو ¿ں پر غور کر رہی ہیں۔
1980ءمیں نیشنل پرسپیکٹیو پلان (National Perspective Plan) سے خارج اس منصوبے پر 1982میں نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ ایجنسی نے نئے سرے سے غور کیا تھا۔ لیکن عام رجحان تب بھی نہیں بن پایا تھا۔ لیکن 14اگست 2002ءکو ہندوستان کے ”بابائے میزائل “صدر نے ملک کے نام اپنے پیغام میں اس منصوبے کا ایک مرتبہ پھر سے ذکر کرکے اسے زندہ کر دیا۔ لگ بھگ اسی وقت تمل ناڈو اور کرناٹک کے درمیان کاویری معاملے میں تنازعہ پورے شباب پر تھا۔ اسی بناءپر ایک وکیل رنجیت کمار نے مفاد عامہ کے لئے ایک رٹ سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔ اس پر سپریم کورٹ نے ریاستوں سے حلف نامہ مانگتے ہوئے مرکزی سرکار کو دس سال کے اندر اس منصوبے کو مکمل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس حکم نامہ کے بعد شروعی ہوئی اس منصوبے پر رائے عامہ ہموار کرنے کی قواعد۔
ملک کے قریب سبھی وزراءاعلی کے کی طرف سے قبولیت کے پیغام کے ساتھ ہی اس منصوبے کے لئے ٹاسک فورس کی ترتیب دے دی گئی۔ دسمبر 2002میں بننے والے تین ممبروں پر مشتمل اس ٹاسک فورس کی سربراہی کا ذمہ سریش پربھو کو سونپا گیا جو آج بھی کام کر رہا ہے۔
[ترمیم کریں] منصوبہ ۔ منفی پہلو
دوسری طرف ملک کے سبھی ماہرین ماحولیات اس منصوبے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں اور اسے ماحول کے لئے انتہائی خطرناک منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ندیوں کو جوڑنے کا مطلب ہوگا ملک کے جغرافیہ سے کھلواڑ کرنا ۔ ندی اپنا راستہ قدرتی طریقہ کے مطابق طے کرتی ہے ۔ ظاہر ہے اسے روکنے ، موڑنے یا کسی اور ندی سے جوڑنے کے نتائج ماحولیات کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔ کوئی بھی ندی اپنے منبع سے نکلتی ہے ، اپنا راستہ طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور پھر کسی سمندر میں جا ملتی ہے ۔ ندی کا یہ راستہ کشش ثقل پر منحصر کرتا ہے ۔ یعنی جس طرف ڈھلان ہوگی ندی اسی طرف بہے گی۔ یہ قدرت کا قانون ہے ندیوں کا پانی سمندر میں ملتا ہے ، وہاں سے بھاپ بننے کا عمل ہوتا ہے پھر بارش ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ Cycleچلتی رہتی ہے ۔ اس Cycleسے چھیڑ چھاڑ کا مطلب ہوا ماحول کے ساتھ کھلواڑ ۔اس طرح کے قدرتی Cyclesسے کھلواڑ کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔لیکن سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ آج اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔
[ترمیم کریں] ندی بیسن (River Basins)
اب ہم ایک نظر ان ندی بیسن (River Basins) کی طرف ؛التے ہیں جو اس منصوبہ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔
[ترمیم کریں] نرمدا بیسن :
اس کا کل رقبہ 98,796مربع کلو میٹر ہے ۔ یہ رقبہ پورے ملک کے جغرافیائی رقبہ کا تین فیصد ہے ۔ اس بیسن کی حد میں مدھیہ پردیش میں 85,854، گجرات میں 11,399اور مہاراشٹر میں 1,538مربع کلو میٹر آتے ہیں۔ اس بیسن کی خاص معاون ندیاں ہیں : توا، بڑھ نر، ہیرن، کولار اور آرکھنڈا۔ اس علاقے میں خاص طور سے کالی مٹی بچھی ہوئی ہے ۔ اس علاقے میں ذراعت کے اعتبار سے قریب 50-90لاکھ ہیکٹئر زمین ہے۔
[ترمیم کریں] مہاندی بیسن :
ا س کا کل رقبہ 141,589مربع کلو میٹر ہے ۔ یہ ملک کے کل جغرافیائی رقبے کا 4فیصد ہے ۔ اس بیسن میں آنے والی ریاستیں ہیں : مدھیہ پردیش (75,136)، اڑیسہ (65,580)، بہار(635)اور مہاراشٹر238) مربع کلو میٹر( ۔ سینیوتھ، جونک، ہس دیو، مانڈ، اِب، آنگ، اور تیل مہاندی کی خاص معاون ندیاں ہیں۔یہاں لال کالی لیٹیرائٹ اور پیلی مٹی پائی جاتی ہے۔ بیسن کا قریب 80لاکھ ہیکٹیر رقبہ ذراعتی ہے جو کہ ملک کی کل ذراعتی زمین کا 4فیصد ہے ۔
[ترمیم کریں] گوداوری بیسن :
312,812 مربع کلو میٹر میں پھیلے اس بیسن میں پروارا ، پورنا، منجرا، پین گنگا، وردھا، بے گنگا، اندراوتی اور کولاب ندیاں گوداوری کی معاون ندیاں ہیں۔ اس علاقے میں کالی ، لیٹیرائٹ ، دوبھر، اور ملی جلی نمکیاتی مٹی پائی جاتی ہے۔اس بیسن کا 190 لاکھ ہیکٹیر حصہ ذراعتی ہے جو کہ ملک کا ایک بڑا ذراعتی علاقہ ہے۔
کاویری بیسن : اس کا کل رقبہ 87,900مربع کلو میٹر ہے ۔ کاویری کی خاص معاون ندیاں ہیں : ہیما وتی ، ہیرانگی، کابِن، سورن وٹی اور بھوانی۔ اس بیسن کا علاقہ سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ یہاں کھیتی کے لائق قریب 56لاکھ ہیکٹیر زمین ہے۔
[ترمیم کریں] برہمپتر ۔براک بیسن :
اس کا اپنا الگ کوئی وجود نہیں ہے یہ گنگا :برہمپتر: میگھنا بیسن کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس بیسن کا رقبہ 580,000مربع کلو میٹر ہے۔ یہ تبت(چین)، بھوٹان، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس بیسن میں لگ بھگ تین کروڑ لوگ بستے ہیں۔ برہمپتر کو تبت میں ’سانگپو‘، اروناچل پردیش میں ’سیانگ‘ یا’ دیہانگ‘ اور بنگلہ دیش میں ’جموں‘ کہتے ہیں۔ ہندوستان میں برہمپتر کی معاون ندیاں ہیں : دیوانگ، لوہت، سنکوش، تیستا، دھن سِری اور چمپا متی۔ براک بیسن بھی ہندوستان، بنگلہ دیش اور میانمار تک پھیلا ہوا ہے۔ ہندوستان میں اس کا رقبہ 41,723مربع کلو میٹر ہے ۔ اس علاقے میں ہندوستان کی ذراعتی زمین کا کل 7.1فیصد حصہ آتا ہے۔
[ترمیم کریں] کرشنا بیسن:
اس کا رقبہ 258,948مربع کلو میٹر ہے ۔ یہ ہندوستان کے کل زمینی جغرافیائی حصے کا 8فیصد ہے ۔ اس بیسن کے دائرے میں کرناٹک (113,271)، آندھرا پردیش(76,252)اور مہاراشٹر 69,425) مربع کلو میٹر(آتے ہیں ۔کرشنا کی معاون ندیاں ہیں : گھاٹ پربھا، مال پربھا، بھیم ، تنگ بھدرا اور موسیِ۔ اس بیسن میں 203لاکھ ہیکٹیر زمین کھیتی کے لائق ہے۔
[ترمیم کریں] انتہائی اہم گنگا بیسن کے تحت گنگا : برہمپتر: میگھنا
اس کا پھیلاو نیپال ، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک ہے ۔ اس کا کل رقبہ 1,086,000مربع کلو میٹر ہے ۔ اتر پردیش میں گنگا بیسن کا پھیلاو ¿ 294,364مربع کلو میٹر ، مدھیہ پردیش میں 198,962مربع کلومیٹر، بہار میں 143,961مربع کلو میٹر، راجستھان میں 112,490مربع کلومیٹر، مغربی بنگال میں 71,483مربع کلو میٹر، ہریانہ میں 43,341مربع کلومیٹر، ہماچل پردیش میں 4,317مربع کلو میٹر ، دہلی میں 1,484مربع کلو میٹرہے ۔ گنگا بیسن میں ملک کی 36کروڑ آبادی بستی ہے ۔ گنگا کے منبع کو ’بھاگیرتھی‘ کہتے ہیں ۔ خلیج بنگال میں گرنے سے پہلی گنگا میں جمنا، رام گنگا ، گومتی ، گھاگھرا، سون، گنڈک، بوڑھی گنڈک، کوسی اور مہا نندا ندیاں آکر ملتی ہیں۔ مغربی بنگال کے فرکّاسے گنگا دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ ’پدما‘کہلاتی ہے اور ہندوستان میں ’بھاگیرتھی ‘ یا ’گنگا‘۔
[ترمیم کریں] سندھ بیسن :
اس بیسن کا بھی اس منصوبے میں کم اہمیت نہیں ہے ۔ اس بیسن کے پھیلاو ¿ کا رقبہ 11,65,500 مربع کلو میٹر ہے ۔ یہ تبت ، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان تک پھیلا ہوا ہے ۔ ہندوستان میں اس کا رقبہ 321,289مربع کلو میٹر ہے جو ملک کی کل زمینی جغرافیائی حصے کا 9.8 فیصد ہے ۔ دریائے سندھ اپنے کل سفر 2,880) کلومیٹر ( کا صرف 1,114کلو میٹر ہی ہندوستان میں طے کرتی ہے ۔ اس کی معاون ندیاں پنجاب کی پانج مشہور ندیاں ہیں : ویاس، ستلج، راوی، چناب اور جھیلم۔
[ترمیم کریں] بین الاقوامی مسائل
یہ وہ علاقے ہیں جن کو جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ علاقہ چھوٹا موٹا نہیں ہے ۔ ملک کی کل زمینی جغرافیائی حصے کا ایک بڑا حصہ اس علاقے کے اندر آتا ہے ۔ یہاں ایک انتہائی اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان سبھی ندی بیسن کو جوڑنا کہاں تک ممکن ہے ؟حالانکہ بہار کی سابق حکومت، کرناٹک سرکار، تملناڈو سرکار، آندھرا پردیش سرکاراس منصوبہ کی حامی ہیں ۔لیکن گذشتہ دنوں مسئلہ آب کو لے کر کرناٹک سرکار اور تمل ناڈو سرکار نے جو رویہ اپنایا تھا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ تین پڑوسی ملکوں، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان کی مدد کے بغیر اس منصوبے کی تکمیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس منصوبہ کے نقصان کے اندیشے سے بنگلہ دیش نے ہندوستان کے سپریم کورٹ سے اس منصوبہ پر روک لگانے کے لئے اپیل کی ہے۔نیپال اور بھوٹان بھی اس منصوبہ سے پش و پیش میں ہیں اور وہاں بھی اس وجہ کر بے چینی پائی جاتی ہے ۔
یہ تو بین الاقوامی مسائل ہیں جو کہ حل کرنا باقی ہیں ۔اب دوسری طرف بھی دیکھیں ، اس منصوبہ پر آنے والی لاگت 5لاکھ 60ہزار کروڑ ہمارے کل ٹیکس کلیکشن کا آدھا حصہ ہے ، ہمارے غیر ملکی زر مبادلہ کا لگ بھگ دوگنا ہے اور ہمارے ملک کی کل GDPسے کہیں زیادہ ہے ۔ حکومت اتنی رقم کہاں سے فراہم کر پائے گی ؟ اور یہ صرف ایک اندازہ ہے مستقبل میں یہ لاگت بڑھ بھی سکتی ہے ۔
[ترمیم کریں] ماحولیاتی عدم توازن
مسئلہ کا ایک بڑا پہلو یہ بھی ہے کہ شمالی ہندوستان کی جن ندیوں کو جنوبی ہند کی جن ندیوں سے جوڑنے کا منصوبہ ہے وہ سبھی ندیاں ہمالیہ سے نکلتی ہیں ۔ ہمالیہ پر جمے برف کے پگھلنے سے ان ندیوں میں پانی آتا ہے ۔ لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمالیہ کے گلیشیر سال بہ سال سکڑتے چلے جا رہے ہیں اور ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں ان کے سکڑنے کی رفتار اور بڑھ جائے اور شمال کی ان ندیوں میں پانی کی قلت ہو جائے ۔ ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آنے والے پچاس سالو ں میں گنگا ایک برساتی ندی ہو کر رہ جائے گی۔ جب گنگا میں ہی پانی نہیں ہوگا تو دوسری چھوٹی ندیوں کو اس سے جوڑ کر فائدہ کیا ہوگا؟ اس سے قبل بھی پچاس کی دہائی میں مشہور ماہر ماحولیات مرحوم کپل بھٹاچاریہ نے فرکّا بیراج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیراج کی وجہ سے گنگا کے بہاو ¿ میں کمی آ جانے کی وجہ سے اس کی تلہٹی اتھلی ہوتی جائے گی اس سے سیلاب تو آئیں گے ہی بعد میں یہ تلہٹی اتنی اتھلی ہو جائے گی کہ گنگا کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گنگا ندی کے سوکھ جانے کا خطرہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی گلیشیروں کا جمنا اور پگھلنا ایک ساتھ ہوتا ہے مگر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سبھی چھوٹے گلیشیر پگھلتے چلے جائیں گے اور موجودہ حالات اسی طرح رہے تو 40-50 سالوں میں گنگا شاید صرف برسات میں ہی بہا کر ے گی۔
ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ندیوں کے جوڑنے سے سیلاب اورسوکھے کے مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر گنگا اور برہمپتر ندیوں کو جوڑ دیا جائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ سیلاب کا مسئلہ حل ہو جائے۔ جب برہمپتر میں سیلاب آیا ہوتا ہے تو گنگا کا بھی وہی حال ہوتا ہے ایسے میں سیلاب کے پانی کو کہاں بھیجا جائے گا؟ کچھ ندیوں میں باہری طور پر فاضل پانی نظر آ سکتا ہے ، لیکن جب یہ ندیاں سمندر میں ملتی ہیں تو اس وقت بہاو ¿کی رفتار کو بنائے رکھنے کے لئے فاضل پانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہو توندی کے مہانے کے آس پاس کے ماحول میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور وہاں پر ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔
[ترمیم کریں] دیگر پہلو
کین اور بیتوا ندیوں کو جوڑنے کے منصوبہ کے پیچھے دراصل تجارتی مقصد کر فرما ہے ۔ وہاں پر گنے، پھلوں اور سبزیوںکی بہتر طریقے سے سینچائی لئے پانی کا انتظام کرنا مقصود ہے ۔ دونوں ندیوں کو صرف گنے کی فصل، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار بڑھانے کے نقطہ نظر سے جوڑا جا رہا ہے۔ جس علاقے کو سامنے رکھ کر یہ پروجیکٹ بنایا گیا ہے وہ بندیل کھنڈ ہے۔ وہاں پہلے سے ہی تالابوں اور کنوو ¿ں کے ذریعہ سینچائی کا اچھا انتظام موجودہے۔ یہ بات بھی دھیان رکھنے والی ہے کہ کین اور بیتوا دونوں ندیاں ایک ہی پہاڑی سلسلہ سے نکلتی ہیں ۔ اس لئے دونوں کے سطح آب میںبہ یک وقت ہی کمی و بیشی ہوتی ہے ۔ اگر دونوں ندیوں کو جوڑ دیا جائے تو کیا فائدہ ہوگا ؟ کین کے پانی کو اگر موڑ دیا جائے تو بھی برسات کے دنوں میں سیلاب آئے گا ہی اور سوکھے کے دنوں میں سوکھا پڑے گا ہی ۔ اس پروجیکٹ کی وجہ سے اس علاقے کی ماحولیات پر بھی زبردست اثر پڑے گا ۔ اس منصوبہ سے ’پنّا ٹائیگر ریزرو‘ کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا ۔ بننے والے ڈیم کی وجہ سے لگ بھگ 8500کسانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے گا ۔ اور نہر کی تعمیر سے کتنے لوگوں کو نقل مکانی کے لئے مجبور ہونا پڑے گا وہ معلوم نہیں ہے ۔ اس منصوبہ سے ہونے والے نقصانات کی تعداد ان گنت ہیں ۔ اس منصوبہ سے اس علاقے میں غذائی سیکورٹی پر اثر پڑے گا اور حکومت کو عوامی بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اب ہم ذرا پانی اور اس کی تنظیم کے تعلق سے ایک جائزہ لیتے ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہر سال لگ بھگ 4,000کیوبک کلو میٹر پانی برستا ہے ۔ لیکن استعمال کے لائق پانی کی مقدار صرف 1,140کیوبک کلومیٹر ہی ہے۔ جس میں 690کیوبک کلو میٹرپانی زمینی سطح پر اور 450کیوبک کلو میٹر پانی زیر زمین ہے۔
1990کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں کل 552کیوبک کلو میٹر پانی کا استعمال کیا گیا، جو کل استعمال کے لائق پانی کا 48فیصد ہے ۔ ملک میں پانی کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2007میں ہم کل استعمال کے لائق پانی کے 66.2فیصد بھی استعمال میں لا سکے تب بھی فی فرد 1,920کیوبک میٹر پانی ہی حاصل ہو پائے گا۔اور یہ بھی تب ہی ممکن ہوگا جب استعمال کے لائق پانی کا 94فیصد استعمال ہو سکے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
آج قریب 1,179ارب کیوبک میٹر پانی بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے اور ایسا موسم برسات میں ہی یعنی 100دنوں میں ہی ہو جاتا ہے ۔ بارش کے مہینے میں ندیوں میں 1,869ارب کیوبک میٹر پانی آتا ہے اور اس پانی میں سے صرف 690 ارب کیوبک میٹر کا ہی استعمال ہو پاتا ہے ۔ برہمپتر جیسی ندیوں کا پانی ایسے ہی بےکار چلا جاتا ہے ، لیکن اگر 432ارب کیوبک میٹر پانی جو زمینی حصہ میں برستا ہے اس کو بھی جوڑ لیں تو 1,112ارب کیوبک میٹر پانی کا مطلب ہے ملک کے ہر ایک شہری کے حصہ میں 1,122کیوبک میٹر پانی استعمال کے لئے موجود ہے ۔ لیکن واٹر ریسورس منسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں بیس میں سے آٹھ ندی ۔گھاٹی علاقے میں پانی کی کمی ہے اور ملک کے زیادہ آبادی والے حصوں میں سطح آب میں کمی آئی ہے ۔ دہلی جیسے بڑے شہروں میں 200میٹر تک بورنگ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ زیر آب پانی کے ذخیروں کے تیزی سے بڑھتے استعمال کی وجہ سے ملک کے زیادہ تر حصوں میں سطح آب تیزی سے گر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ ، پنجاب ، مہاراشٹر، گجرات ، راجستھان، کرناٹک اور جنوب کی کچھ ریاستیں پانی کی قلت کا شکار ہو رہی ہیں۔
کچھ دنوں قبل تک جس ملک کی گود میں ہزاروں ندیاں کھیلتی تھیں ان سب کو خشک کرکے اب ہم چار پانچ ندیوں کو جوڑ کر ان کا پانی یہاں وہاں لے جانے کے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے ملک میں کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں سے ہم یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ اپنے علاقے میں برسنے والی بوندوں کو اگر ہم روک کر رکھیں تو پانی کی مشکل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
کبھی ہمارے ملک میں بیس لاکھ سے زیادہ تالاب تھے۔ اور یہ تالاب کشمیر سے کنیا کماری تک پانی کے بھنڈار تھے۔ لیکن پچھلے دور میں ان سب کو پاٹ پاٹ کر ، کچرا گھر بنا کر ہم نے انہیں برباد کر دیا ۔ آج پھر اس کی طرف لوٹنا ہوگا ۔ وراثت صرف تاریخ نہیں ہوتی ۔ وہ کسی بھی سماج کے ماضی ، حال اور مستقبل کو جوڑتی ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے بھاری بھرکم منصوبوں سے زیادہ فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ ہم چھوٹے چھوٹے کاموں کے ذریعہ پانی کی مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔
اس منصوبے کی تکمیل میں 10-12برسوں میں 5لاکھ60ہزار کروڑ کا خرچ ہوگا یعنی ہر سال لگ بھگ 56ہزار کروڑ روپے کی بجٹ کا انتظام کرنا پڑے گا۔ یہ رقم اپنے ملک کی سرکار کے لئے آسان بات نہیں ہے ۔ اس کام کے لئے سرکار نجی اداروں سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ نجی ادارے یا تو قرض یا پھرمالی ا مدادکی شکل میں ملک کی مدد کریں گے ۔ جیسا کے سب جانتے ہیں یہ ادارے غریب ملکوں کو قرض یا مالی امداد کے بہانے کس طرح سے اپنے چنگل میں گرفتار کر لیتے ہیں ۔ ورلڈ بینک ، بین الاقوامی مالیاتی ادارہ، ایشین ڈیولپمنٹ بینک جیسے ادارے یا پھر دنیا بھر میں پانی کی تجارت کرنے والی بیکٹیل، سویز یا ویوینڈی جیسی کمپنیاں اس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں گی۔ اپنے دیسی صنعت کار بھی اس منصوبے میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کو کھلا چھوڑنے کا صاف مطلب ہے کہ پانی پر لوگوں کے بنیادی حق کا خاتمہ ۔ کیونکہ یہاں صرف کیپیٹل انوسٹمنٹ کا معاملہ نہیں ہے ، حکومت کو اس منصوبے کو چلانے اور اس کے مینجمنٹ کے لئے ہمیشہ ہی پیسے کی ضرورت پڑے گی۔ ظاہر ہے یہاں پیسہ لگانے میں ان کمپنیوں کی اپنی لالچ چھپی ہے۔ واٹر رسورس کنزرویشن، مینجمنٹ اور ڈسٹری بیوشن کے ذریعہ یہ کمپنیاں بے انتہا پیسہ کمائیں گی ۔ اور نتیجتاً ہمیں پانی کی ہر ایک بوند کی قیمت چکانی پڑے گی ۔ چاہے ہم پانی کا استعمال گھریلوکاموں کے لئے کریں یا پھر سینچائی کے لئے۔
ورلڈ بینک اس کے قبل ہی پانی کی قلت کا رونا روتے ہوئے اسے تجارت کی چیز بنانے پر دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک پر دباو ¿ ڈالتا رہاہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ دنیا میں زیادہ تر ملکوں کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ 2020تک دنیا میں پانی کی زبردست قلت ہونے والی ہے اور پانی کی وجہ سے جنگ کی نوبت بھی آ سکتی ہے ۔ اس لئے پانی کی پوری قیمت وصول کی جائے تبھی لوگ پانی کا صحیح طریقے سے استعمال کرنا سیکھیں گے ۔’ بیکٹیل‘ ،’ سویز‘ اور ’ویوینڈی‘ جیسے ادارے دنیا بھر میں ورلڈ بینک کے اسی منطق کو بھنانے میں لگے ہیں اور جم کر پانی بیچ رہے ہیں ۔
آبی ذرائع کی نجکاری عوام کے لئے بہت بڑی پریشانی کی شروعات ہے ۔ اس کا خطرہ چھتیس گڑھ میں شوناتھ ندی کی نجکاری کے ذریعہ محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ شیو ناتھ ندی کے کچھ حصوس کو’ ریڈیس واٹر‘ نامی کمپنی کو 30سالوں کے لئے ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے ۔ وہاں پر کسانوں کو ندی کے پانی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ مچھلی پکڑنے والوں کو ندی میں جال ڈالنے سے روک دیا گیا ہے یہاں تک کہ لوگ اس ندی میں نہانے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ یہ کمپنی صنعتی اکائیوں اور سرکاری اداروں کو پانی بیچ رہی ہے ۔ ریور لنکنگ کے چیرمین سریش پربھو خود اس بات کی امید جتاتے ہیں کہ اس منصوبے کے لئے ضروری رقم اندرونی ذرائع سے ہی حاصل ہو جائے گی ۔ یہ بات بھی پورے طور ان کمپنیوں کے حق میں ہی جاتی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو اس منصوبے کا مقصد ندیوں کے پانی کو گاو ¿ں سے شہر کی طرف ، کھیتی سے صنعت کی طرف اور آخری ٹارگٹ آبی ذرائع کی نجکاری کر پانی کو خرید و فروخت کی چیز بنا کر اس کی تجارت کرنا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی دھیان میں رکھنا چاہئے کہ گنگا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا کام کرنے والی فرانسیسی کمپنی ’سویز اوڈیو ڈیگرومنٹ‘ نے جس طرح اتر پردیش اور اترانچل کے حصے کا پانی ہڑپ لیا ، وہ ایک سیکھنے لائق تجربہ ہے ۔
دنیا کے دوسرے ملکو ں میں ہمارے ملک کے مخالف سمت میں کام ہو رہا ہے ۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنے قریب 100ڈیم کو ختم کر دیا ہے تاکہ وہاں کی ندیوں کو پھر سے رواں دواں کیا جا سکے ۔ ابھی حال ہی میں 8بلین ڈالر سے کیلی فورنیا میں ندیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا کام شروع کیا جا چکا ہے ۔ ہم نے روس کے دریائے ارال کی موت کو بھی اپنی نظروں سے دیکھا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس میں آکر ملنے والی دو ندیوں کے راستے کو تبدیل کرنا تھا ۔
اس منصوبے کی تکمیل میں جو ظاہری نقصان ہیں وہی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لئے قریب 30لاکھ لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑے گا۔15000 مربع کلو میٹر ذراعتی زمین نہروں میں سما جائے گی ۔ مغربی بنگال کے آدھے سے زیادہ چائے کے باغات ختم ہو جائیں گے ۔ زمین اور جنگلوں کے برباد ہونے کا خمیازہ ماحولیات کو بھگتنا پڑے گا۔ پانی کی کولٹی بدل جائے گی ۔غذائی سیکورٹی پر اثر پڑے گا۔ سندر بن کے علاقے کے ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔ ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو جائے گا ۔ کرپشن بڑھے گا اور جرائم بھی بڑھیں گے ۔ ریاستوں کے آپسی تنازعے سر ابھاریں گے اور علاقائی طور پر نکسلی طرز پر بغاوت پنپے گی ۔
عوام کو چاہئے کہ آبی ذرائع کے کنزرویشن اور مینجمنٹ کو پورے طور پر اپنا سماجی حق مانتے ہوئے حکومت سے یہ مانگ کریں کہ وہ اس منصوبہ پر ہونے والے فائدے اور نقصانات سے عوام کو آگاہ کرے ، اس سے متعلق دستاویزوں کو عام کرے اور اس منصوبے کے سلسلہ میں شفافیت کا رخ اپنائے ۔