سنگنگ ان دی رین

وکیپیڈیا سے

جین کیلی، ڈیبی رینلڈز اور ڈونالڈ او کونور کا مشہور سین جس میں وہ ’سنگنگ ان دی رین‘ گاتے ہیں
Enlarge
جین کیلی، ڈیبی رینلڈز اور ڈونالڈ او کونور کا مشہور سین جس میں وہ ’سنگنگ ان دی رین‘ گاتے ہیں

یہ فلم بھر پور تفریح ہے اور یہی اس کا اہم پہلو ہے کہ اس نے تفریح کی تمام توقعات کو پورا کرتے ہوئے انتہائی سنجیدہ مسائل کا احاطہ کیا ہے۔

یہ ہمیں ان حماقتوں کے بارے میں بتاتی ہے جو اس وقت ہوتی ہیں جب ہم کسی ایسے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں جب کوئی تبدیلی رونما ہو رہی ہوتی ہے اور جس کے بارے میں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم ان لمحوں میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔

اس فلم میں ایک کردار ہیروئن لینا لامونٹ ہیس جو اس دور کی مقبول ترین اداکارہ ہے جب سکرین پر سب کچھ کرتی تصویریں آواز سے آشنا ہونے والی تھیں۔ اُسے اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب اس کی خوبصورتی اور کیمرے کے تقاضوں کو پورا کرنے والا حسن فلم بینوں کی تسکین کے لیے کافی نہیں ہو گا۔


لینا لامونٹ کو یہ گمان تھا کہ جب ڈون لوک ووڈ (جین کیلی) فلم کے ہیرو کی حیثیت سے اس کی محبت کا سوانگ بھرتا ہے اور اس کے انداز پر جھوٹ کا شک تک نہیں ہوتا تو وہ حقیقی زندگی میں اس سے محبت کیوں نہیں کرتا ہو گا۔

یہ فلم اس دور کے بارے میں ہے جب پہلی بار ہالی ووڈ کے لوگوں کو ساؤنڈ سٹیج دکھایا گیا اور بتایا گیا کہ سکرین پر نظر آنے والے کردار اسی طرح بولتے ہوئے دکھائی دیں گے جیسے عام زندگی میں بولتے اور سب کچھ کرتے ہیں تو ہالی ووڈ ہی کے لوگ ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے۔

اس وقت بھی ہالی ووڈ فلمی دنیا کا سب سے بڑا مرکز تھا لیکن وہاں کے سرِ فہرست لوگوں کو اس بات کا گمان تک نہیں تھا کہ چلتی پھرتی تصویریں ایک دن بولنے بھی لگیں اور جب یہ وقت آئے گا تو وہ اداکاروں سے کیا تقاضے کرے گا۔

اور جب وہ وقت آیا اور ہالی ووڈ مقبول کی ترین اداکارہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ بے چین رہتے تھے لوگوں کی آنکھوں سے اترنے لگی۔

ان سب باتوں سے ’سنگنگ ان دی رین‘ کی کہانی بنتی ہے۔ اس پر اس میں 1929 سے 1948 تک بننے والی گیارہ کے قریب فلموں کے گانوں کو ایک بار پھر زندہ کیا گیا۔ اس اعتبار سے یہ پہلی فلم تھی جس نے ری مکسنگ کی ابتداء کی۔

فلم کی شروعات 1927 کا زمانہ ہے، مشہورِ زمانہ گرومن تھیٹر میں ایک فلم کی رسمِ اجرا کی تقریب میں شرکت کے لیے اس دور کا سب سے مقبول فلمی جوڑا ڈون لوک ووڈ اور لینا لامونٹ (جین ہیگن) آئے ہوئے ہیں اور فلم بین ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔

واپسی پر ڈون لوک ووڈ کے دوست کاسمو براؤن (ڈونلڈ او کونر) کی کار خراب ہو جاتی ہے اور لوک ووڈ مداحوں سے بچنے کے لیے ایک خاتون کی کار میں سوار ہو جاتا ہے۔ یہ حسین خاتون، کیتھی شیلڈن (ڈیبی رینلڈز) ہے لیکن وہ ڈون لوک ووڈ کو، جو خواتین مداحوں سے بچنے کے لیے اس کی کار میں بیٹھا تھا، پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے اور اسے پولیس والے کے پاس لے جاتی ہے لیکن پولیس والا اسے پہچان لیتا ہے اور کیتھی اسے بیورلی ہل میں اس کے گھر تک پہچانے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔

دونوں کی یہ ملاقات خوشگوار ثابت نہیں ہوتی لیکن ڈون لوک ووڈ کو کیتھی کا یہ انداز اچھا لگتا ہے اور اس لیے کہ ایک عورت ایسی بھی ہے جو اس کی فلمی حیثیت سے متاثر نہیں ہوتی۔

کیتھی اور ڈون کی دوسری ملاقات ایک پارٹی میں ہوتی ہے جس میں کیھتی رقص کے لیے آئی ہے اور اس کا رقص بھی لوک ووڈ کو اچھا لگتا ہے وہ خود بھی ایک رقاص اداکار ہے اور شدید غربت میں گزارے ہوئے بچن کے بعد سٹنٹ مین اور پھر ہیرو بنا ہے۔

اسی دوران حریف سٹوڈیو سے پہلی بولتی فلم جاری کر دی جاتی ہے لیکن ایڈیٹنگ اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناکام ہو جاتی ہے۔ لوک ووڈ کا سٹوڈیو بھی بولتی فلم بنانے کا منصوبہ شروع کرتا ہے اور جلد بازی اور لینا کی بھدی و کرخت آواز اور مائیکروفون کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے اور ایڈٹونگ کی نا تجربہ کاری سے پہلا ناکام تجربہ ثابت ہوتی ہے۔ اس پر لینا کا انگریزی کا لب و لہجہ بھی ایسا مضحکہ خیز ہے کہ اس کے حسن کا سارا مزہ غارت کر دیتا ہے۔

اسی دوران لوک ووڈ کو کیتھی کا خیال آتا ہے۔ اس کا دوست کوسمو اسے بتاتا ہے کہ کیتھی اسی سٹوڈیو میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرتی ہے۔ اسے ڈھونڈ کر بلایا جاتا ہے اور آڈیشن میں پتہ چلتا کہ وہ کیمرے کے لیے ہی عمدہ نہیں ہے آواز کے اعتبار سے بھی بہت عمدہ ہے۔

کیتھی کو فلم میں لینا کی بیک گراؤنڈ آواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ تجربہ انتہائی کامیاب ثابت ہوتا ہے۔

سٹوڈیو کیتھی کو فلم کی پیشکش کرتا ہے تو لینا آڑے آ جاتی ہے اور کیتھی کا ایک ایسا جعلی معاہدہ پیش کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کیتھی پانچ سال تک اس کے لیے پس منظر آواز دینے کی پابند ہے۔ وہ سٹڈیو سے کہتی ہے کہ اگر کیتھی کو الگ فلم دی گئی تو وہ سٹڈیو پر کیس کر دے گی۔ سٹڈیو میں لینا کے شیئر بھی ہیں۔

لوک ووڈ اور اس کا دوست کاسمو براؤن اس صورتِ حال سے بہت پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت تک لوک ووڈ کیتھی پر اس حد تک فدا ہو چکا ہے کہ اسے اپنانے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کیتھی کے ساتھ لینا نا انصافی کر رہی ہے۔


اس لیے ایک شو میں جب کیتھی پردے کے پیچھے اور لینا پردے کہ سامنے گا رہی ہوتی ہے تو کوسمو اچانک پردہ ہٹوا دیتا ہے اور شو دیکھنے والے سب لوگوں پر اصل راز کھل جاتا ہے اور لینا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ حقیقت کو قبول کرلے اور کیتھی کو بھی فلموں میں کام کرنے دے اور کیتھی اس کی بیک گراؤنڈ آواز بھی بنی رہے۔

ایک سو تین منٹ کی یہ فلم تمام وقت فلم بینوں کو ہنسنے اور قہقہے لگانے اور گنگنانے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن اس کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں دو دہائیوں سے زیادہ کے تکنیکی فاصلے کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ہم خود کو ماضی ہی میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی