صدام حسین

وکیپیڈیا سے

پیدائش:28 اپریل 1937ء

Enlarge

سابق عراقی صدر اور بعث پارٹی کے سربراہ۔ بغداد کے شمال میں واقع شہر تکریت ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔


فہرست

[ترمیم کریں] ابتدائی زندگی

بچپن کی تصویر
Enlarge
بچپن کی تصویر

والد کی جلد ہی وفات کے بعد ان کی والدہ انہیں اپنے رشتہ داروں کے پاس چھوڑ کر کسی اور گاؤں چلیں گئیں۔ چند سال بعد انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلے والد کا صدام کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا۔ صدام حسین کے لئے زندگی مشکل تھی اور اسرائیلی مورخ امتازیہ بیرون بتاتے ہیں محلے کے بچے نو عمر صدام کا مذاق اڑاتے تھے۔

صدام حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ قدرے تنہا رہتے تھے اور آس پاس کے لڑکوں پر دھونس بھی جماتے تھے۔

بارہ برس کی عمر میں انہوں نے اپنا گھر چھوڑا اور تکریت میں اپنے ایک چچا کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کے یہ چچا یوں تو استاد تھے لیکن تاریخ عراق پر کتاب ’دی ماڈرن ہسٹری آف عراق‘ کی مصنفہ پیبی مار کہتی ہیں ان کا ماضی خاصہ دلچسپ تھا۔


[ترمیم کریں] سیاسی زندگی

اپنے لڑکپن میں صدام حسین حکومت مخالف مظاہروں میں خاصے سرگرم رہے۔ مگر عراقیوں کی طرح وہ برطانوی نو آبادیاتی حکومت اور امیر جاگیرداروں کے خلاف ہوتے گئے۔

صدام الباقر کے ساتھ
Enlarge
صدام الباقر کے ساتھ

سن انیس سو اٹھاون کے انقلاب میں عراق میں برطانیہ حامی بادشاہت کا خاتمہ کے بعد ملک میں پُرتشد بحرانی دور کا آغاز ہوا۔ لیکن صدام حسین کے لئے ساٹھ کی دہائی اہم ترین ثابت ہوئی۔ عراقی بعث پارٹی کے رکن کی حیثیت سے صدام پارٹی کے ایک سنیئر رہنما اور ان کے چچا کے قریبی رشتہ دار احمو حسن الباباقر کے منظور نظر اور قریبی ساتھی بننے میں کامیاب ہو گئے۔

صدام اس وقت نہ کوئی افسر تھے اور نہ فوج کا حصہ لیکن مورخِ - - - - کہتے ہیں کہ احمو حسن باقر کے لئے وہ خاصے مفید کام انجام دیا کرتے تھے۔

سن انیس سو اڑسٹھ میں بعث پارٹی اقتدار میں آئی اور احموحسن آلا باقر ملک کے نئے صدر بن گئے۔ صدام حسین اسی دور میں احموحسن کے دست راست رہے حکومت کے اہم اور خفیہ کام وہ خود انجام دینے لگے جن میں مخالفین کو منظر عام سے ہٹانا بھی شامل تھا۔ ان مخالفین میں سے کچھ تو قتل کر دیئے گئے، کچھ جلا وطن اور کچھ کو چپ کرا دیا گیا۔


[ترمیم کریں] صدارت

صدر باقر نے عراقی تیل کی صنعت حکومتی کنٹرول میں لے لی عراقی خزانے پر دباؤ بڑھنے لگا اور حکومت نے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا دیہاتوں میں بجلی پہنچنے لگی سڑکیں اور اسکول بننے لگے۔لیکن صدام حسین کے سیاسی عزائم بڑھنے لگے اور سن انیس سو اناسی میں انہوں نے اپنے محسن احمو آلباباقر سے زبردستی استعفٰی دلوا دیا اور خود صدر بن گئے۔جلد ہی انہوں نے اپنی پارٹی کی ’انقلابی کونسل‘ میں اپنے اور حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کا انکشاف کیا۔

صدام حسین
Enlarge
صدام حسین

اس سازش کو منظر عام پر لانے کے لئے صدام نے کونسل کے ارکان کا ایک اجلاس طلب کیا اس میں صدام حسین اسٹیج پر بیٹھے سگار پیتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بغاوت میں ملوث افراد کے نام کی فہرست باآواز بلند پڑھی جاتی ہے اور جنہیں باری باری اجلاس سے باہر لے جا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے یاہلاک کر دیا جاتاہے۔اس اجلاس کے شرکاء جذباتی انداز میں باآوازِ بلند صدر صدام کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔

اس کے بعد بعث پارٹی کے حکومت پر صدر صدام کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور جیسا کہ مورخ پیبی مار نشاندہی کرتی ہیں اگر کوئی سیاسی نظریہ بچا تو وہ صدام ازم کا تھا۔

آنے والے برسوں میں صدام کے سیاسی عزائم عراق کی حدود سے واضع طور پر بڑھنے لگے۔ وہ خود کو عرب دنیا کا رہنما اور تاریخ میں اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالار کے برابر دیکھنے لگے۔


[ترمیم کریں] ایران پر حملہ

صدر صدام کے جارحانہ عزائم کی پہلی مثال جلد ہی انیس سو اسی میں اس وقت سامنے آئی جب ان کی فوجوں نے ہمسایہ ملک ایران میں پیش قدمی کی۔صدر صدام کی توقعات کے برعکس یہ جنگ انہیں بڑی مہنگی پڑی آٹھ برس جاری رہنے والی اس جنگ میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ جنگ کے نتیجہ میں عراق کے خزانے پر بڑا بوجھ ثابت ہوئی۔

[ترمیم کریں] کویت پر حملہ

صدر صدام نے ہمسایہ ممالک سے اقتصادی مدد مانگی انہوں نے کویت پر عراقی تیل چوری کرنے کا الزام عائد کیا اور مطلوبہ معاوضہ نہ ملنے پر اگست انیس سو نوے میں عراقی فوجیں کویت میں داخل ہو گئیں۔صدر صدام کو یہ فوجی اقدام بڑا مہنگا پڑا ان کو توقع تھی کہ بڑی مذہبی طاقتیں جنہوں نے ایران کے خلاف ان کی جنگ میں عراق کا بھر پور ساتھ دیا، ہتھیار اور وسائل فراہم کئے اب اگر ان کھل کر حمایت نہ بھی کریں تو کم از کم مخالفت بھی نہیں کریں گیں۔


[ترمیم کریں] عراق پر اتحادیوں کا پہلا حملہ

لیکن حالات بدل چکے تھے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خلیج میں اپنے مفادات یعنی تیل اور اسرائیل کی حفاظت ہر قیمت پر ضروری تھی۔اور اسی لیے امریکی قیادت میں ’اپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘ کے تحت دسمبر انیس سو اٹھانوے امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر جنگ مسلط کر دی۔


[ترمیم کریں] عراق پر امریکہ اور برطانیہ کا دوسرا حملہ

گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی کہ ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صعف پینتالیس منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا اس لیے عراق پر فروری 2003ء میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد سے اب تک ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

عراق امریکی اور برطابوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اگرچہ اقوام متحد اور سالامتی کوسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ سے کیے جانے والے دعوں کی تائید بھی نہیں کی تھی تاہم اس گٹھ جوڑ سے حملہ کر دیا گیا اپریل میں سقوط بغداد کے بعد صدر صدام حسین روپوش ہوگئے۔


[ترمیم کریں] گرفتاری

صدام گرفتاری کے وقت
Enlarge
صدام گرفتاری کے وقت

اس قبضے کے بعد بائس جولائی دو ہزار تین کو معزول صدر صدام کے دونوں بیٹوں کو اودے اور قصُے کو عراق کے شمالی شہر موصل میں حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 14 دسمبر 2003ءسنیچر کی شب مقامی وقت کے مطابق شب آٹھ بجے عراق کے شہر تکریت کے قریب سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔جس کے بعد ان پر امریکہ کی نگرانی میں مقدمہ چلایا گیا جس نے 3 نومبر کو صدام حسین کو بہت سے شیعہ مسلمان کے قتل کے الزام میں سزا موت سنائی۔

دیگر زبانیں