عالم اسلام کا مستقبل

وکیپیڈیا سے

عالم اسلام کا مستقبل


نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


عالم اسلام کے تابناک اور بہتر مستقبل کے لئے ہمارا سیاسی استحکام اور ملی اتحاد ضروری ہے پھر سیاسی استحکام کے لئے مسلمان ممالک کے مضبوط بلاک کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی ممالک کے وسائل کو عالم اسلام کی مضبوطی اور استحکام کے لئے بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے۔ عالم اسلام پچاس سے زائد ممالک پر مشتمل ہے اس کی کل آبادی سوا ارب ہے جو پوری دنیا کا پانچواں حصہ ہے۔ مسلم ممالک دنیا کے تیل کے ستر فی صد ذخائر کے مالک ہیں اور تیل کی تجارت میں ان کا حصہ ساٹھ فی صد ہے۔ دنیا کی اسی فیصد پٹ سن، پچھتر فیصد ناریل کا تیل، پچیس فی صد مونگ پھلی اور لونگ۔ پندرہ فی صد چاول، چائے اور کافی، دس فی صد چینی، نو فیصد گندم، پانچ فیصد قلعی اور چھ فیصد ربڑ مسلم ممالک پیدا کرتے ہیں۔

اس وقت عرب ممالک کا کثیر سرمایہ یورپی اور امریکی بنکوں میں پڑا ہوا ہے۔ پٹرول کی رائلٹی کی صورت میں جو زرمبادلہ انہیں ملتا ہے وہ واپس مغربی ممالک کے بنکوں میں جمع کرا دیا جاتا ہے۔ اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر عالم اسلام کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے استعمال نہیں ہوتے اس سرمایہ سے اگر وہ تکنیکی مہارت خریدیں اور مسلمان ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کا فنی تعاون حاصل کریں تو عالم اسلام میں صنعتی اور معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ اور وہ اپنے وسائل کو یکجا کر کے، خود کفالت کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح اگر عرب ممالک کا سرمایہ اور ترکی، پاکستان اور مصر کی اسلحہ سازی کی صلاحیت متحد ہو جائیں تو اسلامی دنیا کم از کم روایتی ہتھیاروں میں خود کفیل ہو سکتی ہے نیز ہمارے مشترکہ دفاع کی وجہ سے غیر مسلموں پر ہماری ہیبت اور دبدبہ بیٹھ جائے گا۔ اب تو ماشاءاللہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ جس سے عالم اسلام کا دفاع مضبوط ہو گیا ہے۔

اگر یورپی ممالک کی مشترکہ منڈی بن سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان ممالک مشترکہ اسلامی مارکیٹ قائم نہ کر سکیں۔ جو اقتصادی میدان میں ان اشتراک کی اساس ہو۔ اس طرہ اگر پورے یورپ کی ایک مشترک پارلیمان بن سکتی ہے جہاں ویزے اور پاسپورٹ کی کوئی پابندی نہ ہو تو عالم اسلامی کی مشترکہ پارلیمان تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔ اہل دانش مسمانوں میں یہ فکر اور سوچ دن بدن تقویت پکڑ رہی ہے اس ضمن میں اسلامی عاکمی بنک کی پیش رفت حوصلہ افزا ہے۔

اسلامی خبر رساں ایجنسی کا منصوبہ بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے اس وقت ذرائع ابلاغ پر یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ اور وہ عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی ممالک خبروں کے حصول کے لئے ایسی خبر رساں ایجنسیوں کے محتاج ہیں یہ خبر رساں ایجنسیاں مسلمانوں میں افتراق اور علیحدگی کا بیج کا بیج بوتی رہتی ہیں۔ اور خبروں کو اپنا مخصوس رنگ دیتی ہیں۔ اس لئے عالم اسلام اپنی خبر رساں ایجسی قائم کر کے استحکام کی طرف مزید پیش رفت کر سکتا ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ایک عالمگیر دین ہے جسے ہر دین اور نظریہ پر غالب آنا ہے اور یہی منشاء خداوندی ہے کہ “لیظھرہ علی الدین کلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰی یہ کام امت مسلمہ سے لینا چاہتا ہے۔ لہذا امت مسلمہ کا فرض ہے کہ اس مکمل اور عالمگیر ضابطہ حیات کو پوری دنیا میں عملاً نافذ کرے۔ تاکہ وہ صحیح معنوں میں امت وسط اور بہترین ملت قرار پائے۔

کذالک جعلنا کم امۃ وسطا لتکونو اشھداء علی الناس۔

لیکن اس سے قبل خود مسلمانوں کو اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھالنی ہوں گی۔ اسلامی معاشروں میں اسلامی ضابطہ حیات پورے طور پر لاگو کرنا ہو گا۔ اخلاقی بحران اور ایمان کی کمزوری سے نجات پانا ہو گی۔ کیونکہ آج امت مسلمہ ایمان کی کمزوری کا شکار ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی نصرت کا وعدہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ مشروط ہے۔

انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔

یعنی اگر تم صحیح کامل اور پلے مومن ہو گے تو تم ہی غالب رہو گے۔

فی الحقیقت مسلمان قوم کے اندر “ وَھَن“ کی بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ وَھَن سے مراد ‘حب الدنیا وکراھیۃ الموت‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت نے امت مسلمہ کو اپنا مشن اور مقصد بھلا دیا ہے۔

عالم اسلام کی قیادت کا بحران بھی درپیش ہے عالم اسلام کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو اللہ تعالٰی پر توکل رکھنے والے اور نظریاتی طور پر راسخ اور مضبوط ہوں۔ امریکہ اور بڑی طاقتوں سے ڈرنے والے نہ ہوں کیونکہ سب سے بڑی طاقت اللہ تعالٰی ہے۔ لہذا عالم اسلام کو جرات مند اور مومنانہفراست رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے جو جہاد اور اجتہاد پر یقین رکھتی ہو۔ کردار کی غازی ہو اسلام کی عظمت رفتہ اور شوکت گم گشتہ کے دوبارہ حصول کے لئے پر عزم ہو۔

الغرض عالم اسلام بیدار ہو رہی ہے۔ تمام اسلامی ممالک اتھاد اور وحدت کی طرف گامزن ہیں۔ مختلف عالمی اسلامی تنظیمیں مسلمانوں کے سیاسی استحکام، اشتراک اور تعاون کے لئے کوشاں ہیں۔ مسلم ممالک میں احیاء الاسلام اور اسلامی نظام حیات کو اپنے کے لئے بھر پور تحریکیں متحرک اور فعال ہیں۔ مسلمان قیادت میں اتحاد عالم اسلامی کی فکر راسخ اور توانا ہو رہی ہے مسلم ممالک اسلام کی طرف مراجعت کو اپنا ہدف مقرر کر چکے ہیں۔ غیر اسلامی نظریات سے بیزاری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ ایک سپرپاور روس ہوا میں تحلیل ہو چکی ہے دوسری سپرپاور امریکہ آخری ہچکی لے رہی ہے۔ اور پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ دنیا کے حالات بتلا رہے ہیں کہ عالمی قیادت اسلامیہ کو ملنے والی ہے۔ لہذا عالم اسلام کو مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ انشاءاللہ۔


شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے